Daily Roshni News

۔۔۔۔۔ پھر وہ وقت آیا  ۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔ پھر وہ وقت آیا  ۔۔۔۔۔

ہم دونوں پکنک کے لئے ۔۔۔۔۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )شادی کے شروع کے دنوں میں…جب مجھ سے میرے صاحب پوچھتے تھے کہ کیا لاؤں کھانے میں؟  کیا پسند ہے؟  تو  مجھے عبدل کو یہ بتانے میں بہت پریشانی ہوتی تھی کہ کیسے کہوں …نمکو چاہیے پانچ والی،  دال سویاں،  چلی ملی …

ان کے دماغ میں فاسٹ فوڈ چل رہی ہوتی تھی اور میرے دماغ میں کسی بڑی کریانہ شاپ پہ

میرا بھرا بیگ میرے دماغ میں ہوتا تھا… 😀

پھر ج  وہ مجھے خود لے کے جاتے بازار تو کمرے میں  میرا دراز بھرا دیکھ کے انہیں پتا لگ جاتا کہ کیا کیا پسند ہے.

پر یہ کیا …چیزیں اتنی جلدی ختم کیسے ہو جاتی ہیں.؟

پھر مجھے بھی پتا لگ گیا کہ بس منہ سے کہنا نہیں ہے ورنہ پسند انہیں بھی ہے اور لیپ ٹاپ پہ کام کرتے ساتھ ساتھ کھاتے تو پتا بھی نہیں لگتا کہ کتنا کھا لیا :-\

پھر انس ماشاءاللہ اتنا بڑا ہو گیا …اب ٹینشن ہی ختم .سب کے سامنے بھی لے آتے کہ بھئی بچہ ضد کرتا ہے تو دکان پہ بھیجنے کی بجائے خود منگوا کے رکھ لیتے ہیں کہ  کبھی کبھی دیں دیں گے.

پھر وہ وقت بھی آیا کہ انس کے ساتھ چالاکی کرتے خود منہ میں ایک جیلی یا ٹافی ڈال دی تو سارا گھر رونے کی آواز سے گونجنے لگا.

کوئی پوچھے کیا ہوا ہے؟  ماں جی نے میری چیز لے لی :-\ :-\

مگر اب ہم دو الگ پیکنگ میں لے آتے ہیں.ایک لاک والے دراز میں سیٹ ہوتا ہے تو دوسرا باہر…

انس میاں کو پتا ہی نہیں لگنے دیا جاتا کہ کون سی چیزیں ان کی ہیں اور کون سی میری.!

ہاں ٹھیک ہے کہ  صحت کے لیے ٹھیک نہیں.دانت بھی خراب ہو جاتے ہیں.زیادہ کھانا بھی کسی بیماری کو ہوا دے سکتا ہے..مگر کنٹرول تو تھوڑا تھوڑا کر کے ہی ہوتا ہے.

اب quantity کم ہونے لگی ہے مگر دل تو بچہ ہے جی..!

اب میرے گھر والے بھی حیران پریشان ہوتے ہیں کہ یہ تو سسرال جا کے بھی ویسے ہی ہے.انہیں پتا نہیں ہے کہ بندہ بھی ایسا ہی ہے 😀 😀 😛

گل رعنا

Loading