Daily Roshni News

لوگ کسی کامیاب شخص کو اُس کے کارناموں سے کم، اور اُس کی تکالیف سے زیادہ پہچانتے ہیں۔

لوگ کسی کامیاب شخص کو اُس کے کارناموں سے کم، اور اُس کی تکالیف سے زیادہ پہچانتے ہیں۔

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )آج کا دور کچھ ایسا ہو گیا ہے کہ لوگ کسی کامیاب شخص کو اُس کے کارناموں سے کم، اور اُس کی تکالیف سے زیادہ پہچانتے ہیں۔ایڈیسن کو بلب ایجاد کرنے کے لیے نہیں، بلکہ ہزار بار ناکام ہونے کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔

آئن سٹائن کو اُس کی تھیوری سے زیادہ اس بات سے جانا جاتا ہے کہ وہ بچپن میں بول نہیں سکتے تھے۔

نکولا ٹیسلا کے ساتھ جو زیادتیاں ہوئیں، وہ اُن کی ایجادات سے زیادہ مشہور ہو گئیں۔

اسٹیفن ہاکنگ کو ایک عظیم سائنسدان کی بجائے صرف ایک مفلوج انسان کے طور پر دیکھا جاتا ہے — لوگ نہیں جانتے کہ اُس نے کیا دریافت کیا، کیسے کام کیا، کیا سوچا۔

ہم جب ناکام ہوتے ہیں، تو دل کو تسلی دینے کے لیے دوسروں کی تکلیف دہ کہانیاں یاد کرتے ہیں۔

ہم کہتے ہیں: “پکاسو کی بھی پہلی سات پینٹنگز نہیں بکی تھیں”، “جے کے رولنگ کو بھی کئی بار رد کیا گیا تھا”۔

ہم یہ سوچ کر تسلی پاتے ہیں کہ وہ بھی غریب تھے، وہ بھی اکیلے تھے، وہ بھی معذور تھے۔

ایسا سوچ کر ہم وقتی حوصلہ تو پالیتے ہیں،

لیکن ہم اُن کی زندگی کا اصل جوہر بھول جاتے ہیں —

وہ محنت کرتے رہے، دل لگا کر کام کیا، اُس سے خوشی محسوس کی، اُسے جیا، اور اسی لگن نے انھیں کامیاب بنایا۔

یاد رکھو:

کامیاب لوگ صرف درد سے نہیں پہچانے جاتے،

بلکہ اُس جذبے سے پہچانے جاتے ہیں، جس سے وہ ہر دن کام کرتے رہے۔

informatics

Loading