“کربلا” کا واقعہ تو آپ سب کو پتہ ہی ہے۔
تو یہ دیکھیں کہ
: تعلق “” باللہ کو کس راستے سے گزارا “” جاتا ہے۔
: آپ اپنی زندگی میں یہ ضرور دیکھیں کہ
کہیں ایسا نہ ہو کہ تعلق اور تذبذب اکٹھے ہو جائیں۔
__ پھر کچھ بھی نہیں ملے گا۔__
: تعلق یہ ہے کہ جس کے ساتھ آپ کو” اپنے سے زیادہ لگن ہو’اس کے” حکم پر لبیک کہنا” اس تعلق والے شخص کی contributionصرف یہی ہے
: یعنی اس کا تعلق ایک انسان کے ساتھ ہے’جو اللہ کی طرف اس کا “وسیلہ” ہے’
“”” اللہ تعالٰی انسانوں کو وسیلہ بنا رہا ہے “””
اور فرما رہا ہے کہ
: انعمت علیھم۔۔۔۔۔۔ :
جن لوگوں کی راہ اللہ کی راہ ہے’
ان لوگوں کے ساتھ وابستہ ہو کہ چلنا’
ان کو وسیلہ بنانا’
ان کے ساتھ تعلق بنانا۔
: آپ نے تعلق کے جو فرائض جو چھے ہیں تو وہ یہ ہیں۔
: مثال کے طور پر آپ کو ایک بیماری ہے’ڈاکٹر صاحب نے بیماری کیلئے ایک ایسا علاج تجویز کیا جو عام خیال کے مطابق بیماری کا باعث بن سکتا ہے۔لیکن ڈاکٹر تو وہ ہے۔اب کیا،کیا جائے؟
ڈاکٹر کا تعلق بیماری سے ہے لہذا وہ دوائی کھاؤ ۔
: دقّت وہاں ہوتی ہے جب “آپ کتاب سے کچھ شریعت” پڑھ لیتے ہیں،
اور”” تعلق پیر صاحب سے بنالیا'””
: اس نے آپ کو ایک بات بتائی ہے جو آپ نے ابھی کتاب سے نہیں پڑھی’آپ کہیں گے کہ جو بات آپ کر رہے ہیں میرے خیال میں یہ قرآن کے علاوہ ہے۔ “”””
: تو آپ پیر صاحب کو بھی” نصیحت” کریں گے۔نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ “تعلق آپ کو نہیں ملے گا۔”
: تو راز کیا ہوا؟اس سے اللہ کیلئے تعلق ہو ۔ “
: مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کہتے ہیں
: ہر کہ پیرِ ذاتِ حق را یک ندید
: نَے مریدو نَے مریدو نَے مریدو
اور یہ کہ
: پیر کامل صورتِ ظلِ اِلہٰ
تو یہ بات مولانا روم رحمۃ اللّٰہ علیہ کہہ رہے ہیں’
تو اللہ کی راہ میں جس سے تعلق ہے’اس کے احکام کی اتنی اہمیت ہے جیسے کہ وہاں سے ہوں۔ “”
: اللہ کی بات اللہ جانے اور حضور پاکﷺکی بات آپ لوگوں کیلئے کتنی اہم ہے؟
آپ کہیں گے کہ اتنی ہی اہم ہے تو آپ فرق بیان نہیں کر سکتے۔
: جہاں آپ کے “ذہن میں فرق آ گیا وہاں آپ کا “ایمان ختم”۔اس طرح کا آدمی گمراہ ہو جائے گا'”””
: جو اللہ کو حضور پاکﷺپر فوقیت دےیا حضور پاک ﷺکو اللہ پر فوقیت دے۔اس کئے یہ بڑی نازک بات ہے۔
یہ فوقیت کی بات نہیں ہے بلکہ یہ صرف ماننے کی بات ہے
۔یہ جاننے کی بات بھی نہیں ۔آپ جان نہیں سکتے کہ یہ مقامات کیا ہیں۔
پھر حال پر جس شخص کیساتھ آپ کا تعلق ہے اس کی بات مانو،یہ کہتے ہیں بزرگ۔وہ شریعت کی تعریف یہ کرتے ہیں کہ شریعت وہ لفظ ہے جو تمہارا شیخ تمہارے کانوں میں چپکے سے کہہ دے۔
: اب یہ بات بتانے والی نہیں ہے’یہ بات کتابوں میں نہیں ہے ۔کسی صاحب طریقت کا بیان سنو “”
چاچڑاں وانگ مدینہ ڈِسے
تے کوٹ مٹھن بیت اللہ
: تو وہ چاچڑاں شریف کے بارے میں کہتے ہیں کہ
یہ میرے لئے مدینہ ہے اور وہ بیت اللہ ہے۔
: اور سلطان العارفین رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کہا
: مرشد دا دیدار ہے باہو مینو لکھ کروڑاں حجاں ہُو “”
انہوں نے حج کو جو”حجاں” کہا ہے اس میں بڑے معنی ہیں۔اصل چیز یہ ہے کہ اس شیخ کی بات “اہمیت” رکھتی ہے۔ “
: تو خواجہ غلام فرید رحمۃ اللّٰہ علیہ نے کہا
: میرا عشق بھی تو’ایمان بھی تو’میرا اللہ بھی تو ہے’اور دین بھی تو ہے۔
_تو وہ شیخ جو بات کہے گا وہ پوری ہوگی ___
: تعلق کا مطلب یہ ہے کہ
اس سے ملنے سے’اس کے ساتھ سفر کرنے سے’اس کی بات سننے کیلئے’اس سے پہلے کا علم ترک کر دو۔
“”شریعت”” آپ لوگوں کو جو concept ہے’یہ مفروضہ ہے اور وہ جو concept دے گا ‘وہ وہاں سے ہو گا ۔وہاں پہ ابتدا سے کلمہ پڑھنا پڑتا ہے۔
: سلطان العارفین رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں کہ
کلمہ پیر پڑھایا باہو تے میں سدا سہاگن ہوئی
تو وہ شروع سے بتاتے ہیں ۔ان لوگوں سے تعلق لینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کی بات سے اپنی بات کا آغاز کرو ۔ورنہ تو آپ انہیں سکھانے لگ جائیں گے’
: پیر صاحب آپ بتائیں کہ کیا کرتے ہیں’یہ بتائیں کہ یہ کیوں نہیں کرتے ۔۔۔۔
: ایک بات یاد رکھنا کہ مسلمانوں کے کسی بھی گروہ کے خلاف مسلمانوں کا کوئی نہ کوئی گروہ موجود ہے۔
__اس طرح آپ بڑی مشکل میں ہیں۔__
::: تو ہر گروہ کے مقابلے میں کوئی نہ کوئی گروہ بنے گا :::
حصہ سوئم۰۳)
سرکار حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللّٰہ علیہ