Daily Roshni News

ریگولر پوسٹ۔۔۔تصویر درد۔۔۔شاعر۔۔۔علامہ اقبالؒ

بانگ درا حصہ اول

ریگولر پوسٹ

          تصویر درد

بند اول

نہیں منّت کشِ تابِ شنیدن داستاں میری

خموشی گفتگو ہے، بے زبانی ہے زباں میری

یہ دستورِ زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

اُٹھائے کچھ وَرق لالے نے، کچھ نرگس نے، کچھ گُل نے

چمن میں ہر طرف بِکھری ہُوئی ہے داستاں میری

اُڑالی قُمریوں نے، طُوطیوں نے، عندلیبوں نے

چمن والوں نے مِل کر لُوٹ لی طرزِ فغاں میری

ٹپک اے شمع آنسو بن کے پروانے کی آنکھوں سے

سراپا درد ہوں، حسرت بھری ہے داستاں میری

الٰہی! پھر مزا کیا ہے یہاں دنیا میں رہنے کا

حیاتِ جاوداں میری، نہ مرگِ ناگہاں میری!

مرا رونا نہیں، رونا ہے یہ سارے گُلستاں کا

وہ گُل ہوں مَیں، خزاں ہر گُل کی ہے گویا خزاں میری

“دریں حسرت سرا عمریست افسونِ جرس دارم

ز فیضِ دل تپیدنہا خروشِ بے نفَس دارم”

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تفہیم و تشریح

تصویر درد

بند اول

نہیں منت کش تاب شنیدن داستان میری – .

منت کش : احسان اٹھانے والا ، تاب شنیدن : قوت سماعت سننے  کی طاقت ، زباں بندی : خاموش رہنے کا حکم طوطی ، ایک خوش آواز پرندہ حیات جاوداں : ہمیشہ قائم رہنے والی زندگی ، مرگ ناگہاں : اچانک آنے والی موت : اقبال کہتے ہیں کہ میری داستان نے کسی سننے والے کا احسان نہیں اٹھایا ۔ یعنی کسی بھی  شخص نے میری شاعری اور میرے پیغام پر توجہ نہیں دی اور نہ اس کی اہمیت کو سمجھا ۔ بعض شارحین نے داستان نہ سننے کی وجہ داستان کی درد انگیزی بیان کی ہے جبکہ حقیقت حال .اس کے برعکس ہے اور ایسا در حقیقت اہلِ وطن کی بے حسی کی وجہ سے ہوا ہے ۔ یعنی اپنی بے حسی کی وجہ سے اقبال کی باتوں پر کسی نے کان نہ دھرا۔ یہی وجہ ہے کہ شاعر گفتگو پر خاموشی کو ترجیح دیتے ہوئے چپ رہنے کو بہتر خیال کرتا ہے اور خاموشی کو وسیلہ اظہار بنا لیتا ہے یعنی کچھ نہیں کہتا ۔

شاعر قوم سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ آخر تمھاری بزم میں خاموش رہنے اور کچھ نہ کہنے کی رسم کیوں عام ہو گئی ہے جس کی وجہ سے میں بھی قوم کے سامنے اپنا مدعا پیش کرنے سے قاصر ہوں یعنی میرے پاس پیغام تو ہے اور وہ پیغام میں اہل وطن تک پہنچانا بھی چاہتا ہوں لیکن بزم کا دستور زبان بندی یعنی خاموش رہنے کا اصول آڑے آتا ہے اور میں چپ ہو جاتا ہوں ۔

شاعر کہتا ہے کہ میرے اہل وطن نے میرا پیغام سننے سے انکار کر دیا البتہ پیغام کی نوعیت اہمیت اور دلکشی کی وجہ سے میری داستان کے اوراق سے گل لالہ ، گل نرگس اور گلاب کے پھول فیضیاب ہو رہے ہیں۔ یعنی اگر داستان کو ایک کتاب فرض کر لیا جائے تو ان پھولوں نے اس کتاب کے مختلف اوراق حاصل کر لئے ہیں ۔ شاعر نے اس شعر میں پھولوں کی پتیوں کو اپنی داستان کے ورق قرار دیا ہے ۔ ایک شعر میں لائے ، نرگس، گلاب اور چین کا ذکر بھی صنائع لفظی کی اچھی مثال ہے۔

علامہ اقبال کہتے ہیں کہ جس طرح میری داستان سے لالہ ، نرگس اور رگلاب استفادہ کر رہے ہیں ،بالکل اسی طرح قمری، طوطی اور بلبل بھی اس سے بے اعتنائی نہیں برت رہے ۔ ان کے نغمے در اصل میری ہی آہ و زاری کا دوسرا انداز ہے ۔ یعنی شاعر کہنا چاہتا ہے کہ ان خوش گلو پرندوں نے گانے کا انداز مجھ ہی سے سیکھا ہے اور ان کے نغموں میں جو موسیقیت اور سوز و گداز کی کیفیت ہے وہ میری ہی طرز فغاں کی وجہ سے ہے ۔ اس شعر میں بھی صنعت حسن تعلیل اور رعایت لفظی موجود ہے ۔ علامہ اقبال شمع سے خطاب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں سرتا پا درد میں ڈور ہوا ہوں اور میری ساری کہانی حسرت ناک ہے ۔ میری اس کیفیت پر اے شمع تجھے بھی پروانے کی آنکھوں سے آنسو بن کرٹیک پڑنا چاہئیے.

اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اس دنیا میں میں انتہائی بے بس ہوں ۔ گو میں انسان ہوں اشرف المخلوقات ہوں اور دنیا میں تیرا نائب بھی ۔ لیکن میری بے بسی کی حالت یہ ہے کہ نہ تو مجھے ہمیشگی کی زندگی حاصل ہے اور نہ میرے اختیار میں وہ موت ہے جو اچانک آجائے ۔ اور اگر ۔ بے بسی اور بے اختیاری کی یہی کیفیت ہے تو پھر اس دنیا میں رہنے اور جینے کا فائدہ کیا ہے ۔ اور یہ دکھ صرف میرا ہی نہیں ہے بلکہ یہ ساری دنیا کا دُکھ ہے یعنی صرف میں ہی لے لیں نہیں بلکہ ہماری کائنات اور اس کے جملہ مظاہر بے اختیار ہیں ۔ میں اس کائنات کا ایسا پھول ہوں اور کہ اگر میں خزاں زدہ ہو گیا تو کائنات کے ایک ایک پھول یعنی ہر مظہر پر خزاں چھا جائے گی اور ہر شے اپنے حسن اور جوبن سے محروم ہو جائے گی ۔ اس شعر کے ایک معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اس بے اختیاری کی کیفیت کا صرف میں ہی شکار نہیں بلکہ دنیا کی ہر شے بے اختیا رہے اور یوں میں صرف اپنے ہی دکھ کا اظہار نہیں کرتا بلکہ سارے گلشن کے دکھوں کو اپنا دکھ سمجھ کر انھیں اپنی شاعری میں پیش کرتا ہوں ۔ اس لیے تکلیف خواہ کسی بھی چیز کو پہنچے میں اپنے حساس دل کے باعث اسے اپنی ہی تکلیف اور اپنی ہی مصیبت تصور کرتا ہوں ۔

اس دنیا میں جو کہ حسرتوں کا گھر ہے ، میں ایک مدت سے گھنٹی کی سی کیفیت رکھتا ہوں ۔ کیونکہ دل کے تڑپنے کے باعث مسلسل شور و غل کر رہا ہوں ۔ لیکن گھنٹی کے برعکس میری آہ و زاری اور شور و غل کسی پر ظاہر نہیں ہے ۔

Loading