چیچہ وطنی سے تعلق رکھنے والی تمکین جمال کو جانتے ہیں آپ ؟؟
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک ایسی لڑکی جس کے والد مسالوں کا کاروبار کرتے ہیں اور انھوں نے اپنی بیٹی کو ایک ماں بن کر پالا ہے ۔۔مگر تمکین جمال کو مسالوں سے سخت نفرت ہے ۔الائچی اور لونگ کی خوشبو ۔۔بادیان کے پھول بھی اسے زہر لگتے ہیں۔ساری زندگی وہ گرم مسالوں کی ان تیز اور تلخ خوشبوؤں سے جان چھڑاتی ہوئی آئی ہے مگر۔۔۔؟ 🍀 🌿 🍁 🍂
زندگی اتنی آسان کب ہوتی ہے؟ آزمائش آسان بھی تو نہیں ہوتی؟
باپ بیٹی کے تعلق اور لوبان لونگ الائچی کا یہ تال میل کہاں جاکر جڑے گا؟
چلیں ملتے ہیں تمکین اور جمال ابا فرام چیچہ وطنی سے ❤️
وہ سات سال کی تھی جب اماں کینسر کے موذی مرض سے چل بسیں اور گھر میں پھپھی لوگوں کی عدالتیں لگنا شروع ہوئی تھیں۔
“جمال دین لڑکی ذات کے سہارے کیسے زندگی گزرسکے گی،اب دوسری شادی کرلو”
ابا کا ان پچیس سالوں میں جواب کبھی بھی مثبت نہیں آیا تھا۔
“نئیں آپا۔۔تمکین ہی تو میرا سہارا ہے”
پھپھی سختی بھری آنکھوں سے اسے دیکھا کرتی تھیں اور وہ سہم جایا کرتی تھی۔
“عمر میں بےشک ہم سے بڑے ہو جمال دین مگر یوں ہٹ اور ضد کی روش چھوڑو آگے اتنی عمر پڑی ہے آخر کب تک اور کہاں تک گزاروگے بھلا۔لڑکی ذات پلے میں ہے جو اگلے گھر کی ہو جائے گی پھر سے یہ ویہڑا سنسان اور اکیلا لے کر بیٹھ جاوگے،انسان کے ساتھ سو قسم کی بیماری اور ضرورت ہوتی ہے “۔
ابا جمال ان پچیس سالوں میں ذرا بھی ٹس سے مس نہ ہوتے تھے۔پھپھی لوگ جھک مار مار کر اپنے کرایے بھر بھر کر سفر کرکے آتیں اور بےمراد لوٹ جاتی تھیں۔کہ ان کے بھائی کا دماغ چل چلاگیا ہے کیونکہ جیسے انکے منہ بس ایک ہی جملہ چڑھ گیا تھا۔
“بس آپا کیا کروں دل نہیں مانتا”
آخری بار تو نجمہ پھپھی اکلوتے بڑے بھائی کے اس جملے سے سخت کبیدہ خاطر ہوئیں کہ جس موڑھے پر بیٹھی تھیں اٹھا کر دیوار پر دے مارا۔
“دل کی ایسی کی تیسی”۔
کہا تھا ناں وقت کو چابی لگی ہے ،رفتار پکڑلیا کرتا ہے بھاگے جاتا ہے،اور انسانوں کو لمحوں کے اشراپ دے جاتا ہے۔
تمکین جمال نے زندگی میں اگر کسی شخص سے محبت کی تھی تو ابا جمال دین سے کی تھی۔
وہ مسالوں کا کاروبار کرتے تھے ۔اس تین کمروں کے گھر سے کبھی بھی لونگ۔۔بادیان۔۔الائچی۔۔اورجاوتری کی خوشبو نہ گئی تھی۔
وہ دونوں باپ بیٹی مل کر مسالے صاف کرتے رہتے اور سل بٹے پر پسائی کرتے رہتے تھے۔تمکین جمال کا بچپن،لڑکپن انھی مسالوں کو پیستے ہوئے ہی گزرا تھا۔
سہیلیاں بنانے کا فن اتنا آسان نہیں تھا کہ وہ ماہر ہوجاتی اور ڈھیروں سہیلیاں بناکر ککلی،شٹاپو کھیلتی۔۔اسے بس ایک ہی کام آتا تھا دروازے میں کھڑے ہو کر ہر آتے جاتے ہوئے کو ٹکٹکی باندھ کر تکے جانا اور بس۔۔یہی زندگی تھی۔
پھپھی نجمہ موڑھا توڑنے کے بعد کئی ماہ بعد آئیں تو جمال کی منت لجاجت کے بعد تمکین کو قریبی سکول میں داخل کرواگئی تھیں۔
وہ ابا کے ساتھ سکول جانے لگی تھی۔دن کو سکول سے واپسی کے بعد مسالے پیسنے کے بعد وہ رات کو پہاڑے پڑھتی تھی،فر فر انگریزی کی نظموں کی دہرائی کرتی تھی اور جمال دین اسے دیکھے جاتا۔
“تمکو تم ایسے فر فر انگریزی کیسے پڑھ لیتی ہو بھلا؟”۔
“ابا اتنی تو آسان ہے”۔
“لوگ تو کہتے ہیں بہت مشکل ہوتی ہے”۔
“لوگ سارے سچ تھوڑی بولتے ہیں بھلا۔آپ ہر بات کا یقین مت کیا کریں”۔
پنسل تراش سے پنسل گھڑتی وہ جمال دین کو بہت سنجیدہ سی لگاکرتی تھی۔سکول جانے کے بعد اس میں ایک واضح تبدیلی جو آئی تھی وہ یہ تھی کہ جو کام صرف مائیں سکھاسکتی ہیں وہ اپنے ارد گرد کی لڑکیوں استانیوں کو دیکھ دیکھ کر سیکھ جاتی تھی۔جمال دین ایک مرد تھا کہاں تک سمجھ سکتا تھا۔
وہ ننگے سر نہیں رہتی تھی۔۔سر ڈھانپے رہتی تھی۔صفائی کا خاص خیال رکھتی تھی جھاڑو اٹھا کر گرد کے طوفان ختم کرتی۔
پھر ایک دن تمکین جمال نے ہوم اکنامکس پڑھنے کے بعد تجرباتی کام شروع کردئیے تھے۔
چھٹی کلاس میں پہلا کام اس نے انڈہ ابالنے اور چائے بنانے کا سیکھا تھا۔
وہ برستی ہوئی بارش کا دن تھا جب جمال دین مسالوں کی کھیپ پہنچا کر واپس آیا تھا اور وہ ماں کے جہیز کے چینی والے برتنوں میں ایک کپ چائے،دو انڈوں،چٹکی بھر کالی مرچ کے ساتھ اسکی منتظر تھی۔
تاریخ گواہ ہے وہ جمال دین کی زندگی کی سب سے بہترین چائے اور اچھا ابلا ہوا انڈہ تھا۔
“ابا کیسا لگا؟”۔
وہ کب سے دل میں اٹھتے سوال کو دباکر بیٹھی تھی کہ وہ چائے پی لیں تو وہ سوال کرے۔چہرے پر تجسس۔مڑی ہوئی پلکوں والی گھور آنکھوں میں جواب کی بے چینی تھی۔
وہ وہیں دونوں ہاتھ آنکھوں پر رکھے بیٹھے بیٹھے رونے لگے۔
“ابا کیا ہوا؟”
وہ بوکھلا گئی تھی باہر بارش تھی اور اندر آنسو۔
وہ سسکیاں لیتے ہوئے اس کا ماتھا بار بار چومتے رہے۔
“میں نے ہزار بار نجمہ کو کہا ہے کہ میرا دل نہیں مانتا۔میرا دل سچ میں نہیں مانتا تھا جب میرے پاس میری تمکو ہے تو مجھے کاہے کسی اور کی ضرورت رہے گی بھلا”۔
وہ فخر سے سر اٹھا کر بیٹھی تھی کہ وہ چائے کا کپ اور دو انڈوں کی خوشی نہیں تھی وہ ابا کے سرخرو ہونے کی خوشی تھی۔
“چلو ۔اب بتاو تمہیں کیا چاہیئے؟”
وہ سوچتی رہی کہ کیا مانگے؟ کس چیز کی فرمائش کرے؟
“دو دن بعد بتاؤں گی ابا”۔
دو دن بعد وہ شام کو سیڑھی پر چڑھی بیٹھی تھی اور ابا مسالے پیس رہے تھے تو اس نے اعلان کیا تھا۔
“آپ مجھے سولہ جماعتیں پاس کروادینا بس”
سل بٹے پر پسا سوکھا دھنیا وہیں پڑا رہ گیا۔انھیں توقع تھی کوئی کیچر،چوڑی،گڑیا،بستے کی فرمائش آئے گی مگر وہ لڑکی تو پڑھائی کی دیوانی تھی۔
“ٹھیک ہے میں تمہیں سولہ جماعتیں پڑھاؤں گا”
وہ معاہدہ ہوگیا تھا۔وہ دونوں کو یاد بھی تھا پانچویں،چھٹی مڈل کے بعد میٹرک میں بھی وہ پوزیشن لے کر آگے بڑھتی گئی تھی۔
میٹرک میں جب تمکین جمال نے گورنمنٹ ماڈل ہائی سکول میں قدم رکھا تھا تو اسے یہ ادراک ہوا تھا کہ وہ زندگی میں کبھی سہیلیاں نہ بناسکے گی شاید۔
“تمکین تم لوگوں کی کیا گرم مصالحوں کی فیکٹری ہے؟”۔
“کیوں؟”۔
“تم سے ہمیشہ مسالوں کی بو آتی ہے۔کیا تم مسالے پیستی رہتی ہو؟”۔
وہ سب سے پیچھے بیٹھنے لگی ۔سب سے پیچھے جہاں بادیان کے پھول خاموش رہیں،جہاں جائفل کو چپ لگی رہی اور لونگ بھی سوئے رہیں مگر کب تک۔مس شمیم نے اسے دھرلیا تھا۔
“تمکین جمال آپ کلاس کی ذہین ترین لڑکی ہیں میں آپ کو آج کے بعد فرنٹ ڈیسک پر ہی بیٹھا ہوا دیکھوں”۔
وہ کئی کئی دن چپ رہی ۔ریڈیوپاکستان چلتا رہتا۔بینگن کے پھول گرتے رہے
جمال دین کو اس کی چپی سے خوف آیا تھا۔
“تمکو تم ٹھیک تو ہو ناں؟”۔
“ابا آپ کوئی اور کام نہیں کرسکتے کیا؟”۔
وہ سمجھ نہیں پائے تھے کہ وہ کیا کہنا چاہ رہی تھی۔کئی پردے حائل ہوگئے تھے
“میں سمجھا نہیں “۔
“کچھ نہیں،آپ نہیں سمجھیں گے”۔
دن گزرتے رہے۔وہ روز موسموں کی پرواہ کئے بغیر نہا دھو کر خود کو مل مل کر سکول جاتی رہی کہ سب خاموش رہیں مگر جمال دین کے کام میں کھوٹ نہیں تھا۔چیچہ وطنی میں جمال دین کے مسالوں کی مثالیں دی جاتی تھیں تو وہ کیسے اب کھوٹ ہوجاتے۔
مس شمیم نے ایک دن ریاضی کے پیریڈ میں شاید لونگ کی بو پالی تھی۔
“یہ کلاس ہے یا کسی نائی کی دکان سانس لینا مشکل ہوجاتا ہے میرا،ویسے بھی خوشبو سے میرا جی الٹتا ہے”۔
ساری کلاس کی نظریں تمکین جمال کے وجود میں چھید کرنے لگیں۔وہ سفید رنگ کے ساتھ بیٹھی رہی مگر کہا تھا ناں جیسے ہی زندگی کی خوبصورتی کا ادراک ہونے لگتا ہے اسی وقت بدصورتی کسی کونے ،کسی درز سے جھانک لیتی ہے۔۔!!
تمکین جمال پھر سے پیچھے چلی گئی تھی جہاں اس کے باپ کے کاروبار کا شور تھم سکے۔۔جہاں کوئی سوال نہ ہو۔۔۔!
گھر والے برے نہیں ہوتے ۔۔زمانہ اور لوگ کبھی کبھی ہوتے ہیں اور تربیت صرف گھر نہیں کرتا یہ زمانہ نامی سکول بھی کرتا ہے پھر آپ ہمیشہ اچھے نہیں رہتے۔۔آپ خیر برے بھی نہیں رہتے مگر۔۔۔!!
پچیس سالوں کی اذیت تمکین جمال کے سامنے پھر سے زندہ ہوگئی تھی۔
وہ کئی گھنٹوں کی بحث کرتی رہتی تھی کنیز فاطمہ سے کہ وہ آئیڈیلزم کا شکار ہے وہ اپنی زندگی میں کچھ نیا شامل کرے گی۔۔جہاں کوئی شرمندگی نہ ہو۔۔کچھ بھی۔۔
اسے یاد آیا تھا جب وہ اور کنیز فاطمہ ہاسٹل روڈ کے پاس پنجاب یونیورسٹی کی دھان کی فصل کے سٹے ہتھیلیوں سے مسلتے ہوئے آئیڈیلزم اور آگے کی زندگی پر بحث کررہی تھیں تو اس نے کتنا ہنس کر کنیز فاطمہ سے ایک بات کہی تھی۔
“میں اب پہلے والی تمکین جمال نہیں رہی۔میں اپنی آگے کی زندگی میں کوئی شہزادہ ہی ڈھونڈوں گی جو پھولوں اور خوشبوؤں کا کاروبار کرتا ہوگا چاہے وہ گلاب بیچتا ہو،یا چاہے اس کے موتیے کے کھیت ہوں”۔
وہیں وقت نے یہ لمحہ ہنس کر دیکھا تھا ۔
آج کھڑکی کھلی تھی تو تمکین جمال کو سب یاد آیا تھا۔
وہ پہلے والی تمکین جمال واقعی نہیں رہی تھی۔
وہ ارسلان مکرم نامی شہزادے کو ڈھونڈ چکی تھی۔
مگر وہ گلاب نہیں بیچتا تھا۔
ہائے افسوس ۔۔۔کہ وہ موتیے کے کھیتوں کا مالک بھی نہیں تھا۔۔!
وہ تو بس بادیان کے پھول اور لونگ کا بیوپاری تھا۔
وہ شدت سے روتے ہوئے کنیز فاطمہ سے بات کررہی تھی جو اپنے تھل کی ریت پر ننگے پاؤں ٹہل رہی تھی۔
“کنیز فاطمہ ہم نے خواب بنے تھے مگر وہ دھاگے کچے تھے سب کچھ ادھڑگیا ہےسینے کے ہنر میں ہم دونوں اناڑی ہیں۔اب کیا ہوگا؟میرا سانس بند ہورہا ہے کاش ہم دونوں بھی سیرت امتیاز کی طرح سب چھوڑ چھاڑ کر دل کے مرض کا سہارا لے کر کسی اور طرف نکل جاتے”۔
کھڑکی کھلی ہے مگر ہوائیں بند ہوچکی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
(منشا محسن علی کی کتاب “لا” سے ایک جھلک ❤️)