۔۔۔۔۔ غزل ۔۔۔۔۔۔۔
شاعرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افشاں سحر
اب میں بھی اجڑ جاؤں گی آثار بہت ہیں
دشمن جو یہاں کم ہیں تو اس پار بہت ہیں
سجتی ہے یہاں ان کے لیے رقص کی محفل
جو لوگ یہاں صاحب کردار بہت ہیں
مجرم یہاں بچ جاتا ھے ہر بار ہی دیکھو
کیسے نہ بچے اس کے طرف دار بہت ہیں
ٹھوکر سے نہیں ڈرتے ہیں ٹھکرائے ہوئے لوگ
کھانے کو یہاں ٹھوکریں تیار بہت ہیں
اس شہر کی مستی کا الگ رنگ ھے اپنا
غم خوار ہیں جتنے بھی وہ مے خوار بہت ہیں
آسان ھے اپنانا جفاؤں کو سحر اب
رشتے جو وفا کے ہیں وہ دشوار بہت ہیں
افشاں سحر