خیالی پلاؤ بھی کا میابی اور مقاصد کی تکمیل کے لئے فائدہ مند ہے۔
(قسط نمبر3)
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ خیالی پلاؤ بھی کا میابی اور مقاصد کی تکمیل کے لئے فائدہ مند ہے) اچھی طرح سے لیس Well-Equipped دماغ رکھتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کام کے دوران ان کی یادداشت بھی اعلی درجے کی ہوتی ہے۔ تحقیق میں ماہرین نے دیکھا کہ ایک آسان ٹاسک کے دوران جو شر کا خیالی پلاؤ میں مصروف تھے ، ان میں اپنی ٹاسک کے متعلق معلومات دوسروں سے زیادہ پائی گئی۔ ماہرین کہتے ہیں ہے کہ دن میں خواب دیکھنے میں دماغ میں ویسا ہی ذہنی عمل ہوتا ہے جیسا میموری کا نظام کے کام کرنے پر ہوتا ہے۔
مسائل کا بہتر حل :برٹش کولمبیا یونیورسٹی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ہمارا ذہن خالی ہو تا ہے تو ہم خیالی پلاؤ نہیں بنارہے ہوتے بلکہ ہم اپنے مسائل حل کر رہے ہوتے ہیں۔ ماہرین نے خیالی پلاؤ بنانے والوں کے دماغ کو MRI کے ذریعے اسکین کیا تو ان کے دماغ میں پیچیدہ مسائل حل کرنے والے علاقے
Complex Problem-Solving Areasانتہائی سرگرم تھے۔
بلڈ پریشر اور اسٹریس میں کمی: اینٹی اسٹریس سینٹر نیو جرسی کے محققین کا کہنا ہے کہ دن میں خواب دیکھنا پینوس جیسا ہی ہے ، یہ اسٹریس کی سطح کے ساتھ ساتھ بلڈ پریشر کو بھی کم کر سکتا ہے۔ لوگ دن میں کچھ وقت خیالی پلاؤ بنانے میں صرف کریں تو اسٹریس اور اینگزائٹی دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ
بلڈ پریشر میں بھی کمی ہوتی ہے۔
مینینگر Menninger کلینک کے ماہر نفسیات کے مطابق دن میں خواب دیکھنا ، آپ کو ذہنی طور پر اقدامات کی مشق کرنے کی اجازت دیتا ہے، اس طرح آپ آنے والی کسی صورت حال کو پہلے سے خیالات میں لا کر معاملات کو بہتر ہینڈل کرنے کے لیے خود کو تیار کر سکتے ہیں۔
موجد اور سائنسدان بنیں : دن میں خواب دیکھ کر آپ سائنسدان اور موجد بن سکتے ہیں۔ معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن اور نوبل انعام یافتہ مولیکیولر بائیولوجسٹ الزبتھ بلیک برن DayDreamers ہی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ آئن سٹائن جب خیالوں میں کائنات کے کنارے پر دوڑنے کا خواب دیکھ رہا تھا تو اس نے نظریہ اضافیت دریافت کیا تھا۔ نوبل انعام یافتہ بلیک برن نے اپنی تحریروں میں اس بات کو قبول کیا ہے کہ اس کی کامیابی میں خیالی پلاؤ بناتے رہنے کا اہم کردار ہے۔
ہمدرد اور رحمدل:
Psychological Bulletin میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے ایک ہائی اسکول کے طالب علموں کا جائزہ لیا، ماہرین نے دریافت کیا کہ جو طالب علم دن میں زیادہ خواب دیکھتے ہیں ان میں ہمدردی اور رحمدلی کا جذبہ دوسروں کے مقابلے زیادہ پایا گیا۔
رکھنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ اگر چہ ماہرین نفسیات کو ہمیشہ سے ہمارے دماغ میں بھٹکنے والے خیالات اور وہم کے بارے میں جاننے میں دلچپسی رہی ہے۔ تاہم کور نیل کالج سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق دن میں خواب دیکھنا سوچ کو مرکوز رکھنے کے لیے برا نہیں ہے بلکہ ، اس کا ذہنی کارکردگی پر مثبت اثر ہو سکتا ہے، بشرطیکہ خیالات کا رخ صحیح وقت میں صحیح سمت میں ہو۔ اس تحقیق سے وابستہ ریسرچر پی ایچ ڈی ڈاکٹر ناتھن اسپرینگ Dr. Nathan Spreng کا کہنا ہے کہ دن میں خواب دیکھنا ہمیشہ بر انہیں ہوتا ہے حتی کہ اس وقت بھی نہیں کہ جب آپ کام پر پوری توجہ مرکوز رکھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں یا پھر جن کاموں میں توجہ اور رفتار دونوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تحقیق کا نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ کبھی کبھی دن میں خواب دیکھنے سے رکاوٹ نہیں بلکہ مدد ملتی ہے۔
ارادا تا مائنڈ وانڈرنگ ، آپ کی یاداشت کو بھی بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جن چیزوں کو آپ ذہن نشین کرنا چاہتے ہوں بس اسی ٹوپک یا عنوان کو بنیاد بنا کر اپنے دماغ کو وانڈرنگ کی جانب مبذول کرادیں۔
دماغ کی کار کردگی کو مزید بہتر بنانے کے لیے برطانیہ کی یورک York یونیورسٹی کے ماہر نفسیات جو ناتھن اسمال ڈوڈ Jonathan Small Wood ایک طریقہ اور بتاتے ہیں، جس کے مطابق جتنا ہو سکے اپنے وانڈ رنگ مائنڈ کو مستقبل کی پلاننگ کرنے میں لگائیں۔
جوناتھن کے مطابق اپنی سوچوں کا محور ماضی کو بنانا آپ کے موڈ کو ست کرتا ہے جو آپ کے اندر آگے بڑھنے کی لگن کو دباتا جاتا ہے۔ جبکہ
ماضی کو چھوڑ کر مستقبل میں آگے بڑھنے کی خواہش اور لگن آپ کے موڈ اور دماغ کو زیادہ
متحرک بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اگر کسی بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور اس سے جسمانی فرار بھی ممکن نہ ہو تو ایک خاص حد تک ذہنی فرار بھی تکلیف کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ اسے علم نفسیات کی اصطلاح میں بیدار خوابی (Day Dreaming) کہا جاتا ہے۔ اس میں انسان خیالی پلاؤ پکاتا ہے اور خود کو خیال ہی خیال میں اپنی مرضی کے ماحول میں موجود پاتا ہے جہاں وہ اپنی ہر خواہش کی تکمیل کر رہا ہوتا ہے۔ جیل میں بہت سے قیدی اسی طریقے سے اپنی آزادی کی خواہش کو پورا کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ہر شخص کسی نہ کسی حد تک بیدار خوابی کرتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے مسائل کی شدت کو کم کرتا ہے۔
مثلاً موجودہ دور میں جو لوگ معاشرے کی خرابیوں پر بہت زیادہ جلتے کڑھتے ہیں، وہ خود کو کسی آئیڈیل معاشرے میں موجود پا کر اپنی مایوسی کے احساس کو کم کر سکتے ہیں۔ اسی طرز پر افلاطون نے یوٹوپیا کا تصور ایجاد کیا۔ اس ضمن میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ بیدار خوابی اگر بہت زیادہ شدت اختیار کر جائے تو یہ بہت سے نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا باعث بنتی ہے۔ شیخ چلی بھی اسی طرز کا ایک کردار تھا جو بہت زیادہ خیالی پلاؤ پکایا کرتا تھا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس طریقے کو مناسب حد تک ہی استعمال کیا جائے۔
ماضی کو چھوڑ کر مستقبل میں آگے بڑھنے کی خواہش اور لگن آپ کے موڈ اور دماغ کو زیادہ
متحرک بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اگر کسی بہت بڑی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے اور اس سے جسمانی فرار بھی ممکن نہ ہو تو ایک خاص حد تک ذہنی فرار بھی تکلیف کی شدت کو کم کر دیتا ہے۔ اسے علم نفسیات کی اصطلاح میں بیدار خوابی (Day Dreaming) کہا جاتا ہے۔ اس میں انسان خیالی پلاؤ پکاتا ہے اور خود کو خیال ہی خیال میں اپنی مرضی کے ماحول میں موجود پاتا ہے جہاں وہ اپنی ہر خواہش کی تکمیل کر رہا ہوتا ہے۔ جیل میں بہت سے قیدی اسی طریقے سے اپنی آزادی کی خواہش کو پورا کرتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ہر شخص کسی نہ کسی حد تک بیدار خوابی کرتا ہے اور اس کے ذریعے اپنے مسائل کی شدت کو کم کرتا ہے۔
مثلاً موجودہ دور میں جو لوگ معاشرے کی خرابیوں پر بہت زیادہ جلتے کڑھتے ہیں، وہ خود کو کسی آئیڈیل معاشرے میں موجود پا کر اپنی مایوسی کے احساس کو کم کر سکتے ہیں۔ اسی طرز پر افلاطون نے یوٹوپیا کا تصور ایجاد کیا۔ اس ضمن میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ بیدار خوابی اگر بہت زیادہ شدت اختیار کر جائے تو یہ بہت سے نفسیاتی اور معاشرتی مسائل کا باعث بنتی ہے۔ شیخ چلی بھی اسی طرز کا ایک کردار تھا جو بہت زیادہ خیالی پلاؤ پکایا کرتا تھا۔ اس لئے یہ ضروری ہے کہ اس طریقے کو مناسب حد تک ہی استعمال کیا جائے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2017