۔۔۔۔ روشن پاکستانی ۔۔۔۔۔۔۔
لیکچرار اویس وہرہ
انٹرویو کار ۔۔۔۔۔۔ سید رضوان حیدر بخاری
استنبول، ترکیے(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔نامہ نگار خصوصی۔۔۔سید رضوان حیدر
استنبول، ترکیہ کی آئیدن یونیورسٹی میں درس و تدریس سے وابستہ ایک روشن پاکستانی اویس وہرہ، جنہیں کم عمر ترین پاکستانی لیکچرار ہونے کا اعزاز حاصل ہے، 9 برس سے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور پاکستان کا نام روشن کر رہے ہیں۔۔۔
استنبول، ترکیے (نامہ نگار خصوصی، سید رضوان حیدر بخاری)
دیار غیر میں روشن پاکستانی کے عنوان سے شروع کیئے گئے سلسلہ میں آج ہم استنبول، ترکیہ کی ایک نجی یونیورسٹی میں آئے ہیں، ایک ایسے روشن پاکستانی سے ملنے جو استنبول آئیدن یونیورسٹی کے بزنس مینجمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں، وہ نہ صرف اس شعبہ کے نائب ہیڈ ہیں بلکہ یورپی یونین کے طلباء تبادلہ پروگرام کے کوآرڈینیٹر بھی ہیں، اور انہیں کم عمر ترین لیکچرار ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اپنی محنت، لگن اور صلاحیتوں سے دیار غیر میں اپنے وطن عزیز کا نام روشن کر رہے ہیں۔ آئیے انہی کی زبانی جانتے ہیں کامیابی کے اس خوبصورت مگر محنت سے بھرپور سفر کی مکمل داستان۔۔۔
تعارف لیکچرار اویس وہرہ:
میرا نام اویس وہرہ ہے اور میرا تعلق پاکستان کے شہر کراچی سے ہے، میں نے ایک پڑھی لکھی فیملی میں آنکھ کھولی اور پڑھائی کے ماحول میں ہی پروان چڑھا۔۔ میرے والد صاحب پیشے کے اعتبار سے اکاؤنٹنٹ تھے اور ساتھ ہی وکالت کے شعبہ سے بھی وابستہ تھے جو کہ اب ریٹائر ہو چکے ہیں ۔میرے دو بڑے بھائی ہیں اور میں سب سے چھوٹا ہوں ۔بچپن کراچی کے علاقے ناظم آباد میں گزرا ۔۔ والدین کے مطابق میں ایک شرارتی مگر ذہین بچہ تھا۔۔تاریخی سندھ مدرستہ السلام اور اسلامیہ سائنس کالج سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور پھر ہمدرد یونیورسٹی سے بی بی اے کی ڈگری حاصل کی۔۔
میزبان سوال:
اعلی تعلیم کے لئے ملک سے باہر جانے کے پیچھے کیا سوچ اور محرکات تھے؟
اویس وہرہ:
میرے دونوں بڑے بھائیوں نے بھی اعلی تعلیم بیرون ملک سے ہی حاصل کی، ایک تو یہ موٹیویشن تھی، دوسرا میں خود بھی ملک سے باہر نکل کر اپنے ایکسپوژر اور تجرے کو بڑھانا چاہتا تھا۔۔
میزبان سوال:
اعلی تعلیم کے لئے ترکیہ کے انتخاب کی وجہ؟
اویس وہرہ:
میں چونکہ کچھ دینی ماحول کی طرف بھی رغبت رکھتا تھا اور کسی ایسے ہی ملک کا انتخاب کرنا چاہتا تھا جہاں پر اسلامی ماحول بھی میسر ہو اور جدت بھی، تو ترکیہ ایک ایسی آپشن تھی جہاں دونوں چیزوں کا امتزاج تھا اور ایک اور وجہ یہ تھی کہ ترک لوگ پاکستانیوں کو بہت عزت اور احترام دیتے ہیں۔۔
میزبان سوال:
ترکیہ آنے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور ان مشکلات سے کیسے نبرد آزما ہوئے؟
اویس وہرہ:
جی ترکیہ آنے کے بعد جو سب سے بڑا اور مشکل چیلنج تھا وہ یہاں کی زبان تھی۔۔ گو کہ ترکش زبان میں بے شمار الفاظ اردو کے ہیں بلکہ یوں کہیں کہ اردو زبان میں بہت سے الفاظ ترکش زبان کے ہیں لیکن طرز تکلم اور لہجہ مختلف ہونے کی وجہ سے خاصی مشکل ہوتی ہے۔۔ جیسا کہ کسی بھی چیز یا زبان کو سیکھنے کے لئے دو وجوہات اہم ہوتی ہیں، ایک شوق اور دوسری مجبوری(مسکراہٹ کے ساتھ ) تو میرے پاس یہ دونوں ہی وجوہات تھیں ترکش زبان سیکھنے کے لیے۔۔ اور اس چیلنج کو پورا کرنے میں میرے آئیدن یونیورسٹی کے اساتذہ اور ہم جماعت ترکش طلباء نے میری بہت مدد کی اور بہت ہی کم وقت میں میں نے زبان اتنی سیکھ لی کہ میں بآسانی ترکیہ میں زندگی گزار سکتا تھا۔۔ اس مشکل کے علاوہ ایک مشکل استنبول میں پاکستانی کھانوں کا باآسانی دستیاب نہ ہونا تھا اور بنا مسالوں کے ترکش کھانوں سے دوستی کرنا ہی اس مشکل کا واحد حل تھا۔۔
میزبان سوال:
جس یونیورسٹی میں بحیثیت طالب علم کے وقت گزارا اور پھر اسی یونیورسٹی میں استاد کی حیثیت سے فرائض نبھانا کیسا احساس اور تجربہ ہے؟
اویس وہرہ:
جی بالکل یہ ایک نا قابل بیان اور فخر کا احساس ہے کہ جس یونیورسٹی کے کمرہ جماعت میں ایک طالب علم کے حیثیت سے بیٹھا کرتا تھا وہیں اسی کمرہ جماعت میں استاد کی حیثیت سے کھڑے ہونا اور سامنے بیٹھے طلباء سے مخاطب ہونا۔۔ (آنکھوں میں آنسو امڈ آئے )۔۔ اور یقینا یہاں اس مقام پر پہنچنے کیلئے محنت، عظم اور آزمائشوں سے بھرپور ایک لمبا سفر تھا جو الحمدللہ اللہ تعالٰی کی مدد، والدین کی دعاؤں اور میری شریک حیات اور بیٹے کی بہت سی قربانیوں کی بدولت طے کیا۔۔
میزبان سوال:
آپ اپنی زندگی اور کیرئیر میں کسے اپنی بہترین کامیابی سمجھتے ہیں؟
اویس وہرہ:
جب آپ اپنی منزل کا تائین کر کے وہاں پہنچنے کیلئے تگ و دو کرتے ہیں تو راستے کے مختلف پڑاؤ آپکی کامیابی کہلاتے ہیں، میرے اس سفر میں، میں سمجھتا ہوں کہ میری کامیابی یہ ہے کہ میں کم عمری میں ہی اس عہدے کو حاصل کر پایا، ترک اور بہت سے دوسرے ممالک کے لوگوں سے محبت اور عزت ملی جو میرے ساتھ ساتھ میرے وطن عزیز پاکستان کی عزت بھی ہے کیونکہ جب آپ بیرون ملک ہوتے ہیں تو آپ صرف خود کو نہیں بلکہ اپنے پورے ملک کے نمائندے اور سفیر ہوتے ہیں۔۔ آپ کا کوئی اچھا کام آپکے ساتھ آپکے وطن کی بھی عزت کا باعث ہوتا ہے اور کوئی برا اقدام پورے ملک کی بدنامی کا باعث ہوتا ہے۔۔ اگر مادی اعتبار سے بات کریں تو اسی درسگاہ میں استاد کا درجہ حاصل کرنا بھی یقینا ایک اہم اور بڑی کامیابی ہی ہے جہاں آپ زیر تعلیم رہے ہوں۔۔ اور پھر ترکیہ میں اسی تدریسی پیشے کی بدولت ہی میں نے ترکش شہریت بھی حاصل کی، جو ایک اور بڑی کامیابی سمجھتا ہوں۔۔
میزبان سوال:
مستقبل میں آپکے کیا عزائم اور منصوبے ہیں جن کیلئے آپ برسر پیکار ہیں اور کیا مزید حاصل کرنے کے خواہشمند ہیں؟
اویس وہرہ:
جی بالکل سیکھنے کا عمل تو ہمیشہ ہی جاری رہتا ہے، اب میری اگلی منزل میری پی ایچ ڈی کی ڈگری کا مکمل ہونا ہے، جو کہ میں یہیں استنبول کی تجارت یونیورسٹی سے کر رہا ہوں اور جو آخری مراحل میں ہے، یہ یقینا میری زندگی میں ایک اور سنگ میل ہو گا۔۔ اسکے علاوہ میری یہ ایک دیرینہ خواہش ہے کہ میں ترکیہ اور پاکستان کی جامعات کے درمیان کچھ ایسا پل قائم کر سکوں جس سے پاکستانی نوجوان طلباء و طالبات کو فائدہ حاصل ہو اور اس کیلئے بھی میں کارگرداں ہوں۔۔
میزبان سوال:
آخر پر ایک کامیاب پاکستانی کی حیثیت سے آپ پاکستانی نوجوان نسل کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
اویس وہرہ:
جی میرا پیغام اپنی نوجوان نسل کے لئے یہی ہے کہ اپنی زندگی کو مختصر مدتی اور طویل مدتی اہداف سے آراستہ کریں، منصوبہ بندی کریں اور پھر ان اہداف کو حاصل کرنے کیلئے لگن اور عظم مسمم کے ساتھ محنت کریں تو کوئی بھی طاقت آپکو اپنی منزل اور کامیابی حاصل کرنے سے نہیں روک سکتی۔ اور منزل پر پہنچنے کیلئے ہمیشہ درست اور سیدھا راستہ اختیار کریں چاہے وہ طویل اور دشوار ہی ہو، لیکن شارٹ کٹ سے پرہیز کریں، کیونکہ شارٹ کٹس شاید آپکو منزل تک تو پہنچا دیں لیکن اس میں کامیابی اور احساس کامرانی کا فقدان لازمی پایا جائے گا۔۔
میزبان۔۔۔
گو کہ آج کل گرمیوں کی چھٹیاں ہیں، لیکن آپکے زیر تعلیم کچھ طالبات یہاں موجود ہیں، چلیے ان سے جانتے ہیں کہ آپ کیسے استاد ہیں۔۔
ترکش طالبہ جیرن:
اویس سر انتہائی شفیق اور دوستانہ طبیعت کے استاد ہیں، اور اپنے پڑھائے جانے والے موضوعات میں مہارت بھی رکھتے ہیں۔۔ہمیں ان کی کلاس میں بیٹھتے ہوئے بہت مزا آتا ہے۔۔
ترکش طالبہ ابریار:
ہم ترک لوگ ہمیشہ سے پاکستانیوں کو بہت پسند کرتے ہیں، ترکیے کے تاریخی پس منظر میں، یہی وجہ ہے کہ اویس سر ہمارے ہر دلعزیز استاد ہیں۔۔ یہ طلباء کی نفسیات کو اچھے سے سمجھتے ہیں کیونکہ یہ اسی یونیورسٹی میں زیر تعلیم بھی رہے ہیں۔۔ اور مضامین میں انکے علم اور تحقیق کا تو کوئی ثانی نہیں۔۔
ترکش طالبہ زینب:
اویس سر ایک غیر روایتی استاد ہیں اور طلباء کو ان کے لیول پر آ کر سمجھاتے ہیں جس سے چیزیں بہت آسان ہو جاتی ہیں۔۔ ہمارے ساتھ گھل مل جاتے ہیں جو ہمیں بہت اچھا لگتا ہے۔۔۔
میزبان اختتامیہ:
اویس وہرہ صاحب لمبے عرصے سے پردیس میں مقیم ہیں لیکن دیار غیر میں بھی اپنے وطن کی روایات اور ثقافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں، آخر پر مہمان نوازی کی اقدار کو نبھاتے ہوئے انہوں نے ہمیں سندھی ثقافت کی پہچان “سندھی اجرک ” کا خوبصورت تحفہ اور اپنی یونیورسٹی کی خوبصورت یادگار بھی پیش کی۔۔۔
یہ ہیں وہ “روشن اور قابل فخر ” پاکستانی جو دیار غیر میں وطن عزیز کی اصل شناخت ہیں اور وطن عزیز کا نام روشن کر رہے ہیں۔۔ ہم ترکیے میں ایسے ہی روشن پاکستانیوں کی تلاش میں سرگرداں رہیں گے اور آپ سے ملاقات کرواتے رہیں گے۔۔۔ انشاءاللہ
بخاری)