Daily Roshni News

نکاح کے بعد بیوی کی وہ عادات جو رشتہ کھوکھلا کر دیتی ہیں۔۔۔

نکاح کے بعد بیوی کی وہ عادات جو رشتہ کھوکھلا کر دیتی ہیں…..!

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )نکاح صرف ایک معاہدہ نہیں، یہ دو جانوں، دو خاندانوں اور دو تاریخوں کے بیچ ایک رشتہ ہے۔ یہ محبت، اعتماد، تحفظ، ذمہ داری اور قربانی کا ایک پیکٹ ہوتا ہے جسے کھولتے ہی اگر احتیاط نہ کی جائے تو اس میں سے زہر بھی نکل سکتا ہے۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ شادی کے بعد کام ختم ہوا، مگر حقیقت یہ ہے کہ اصل کام وہیں سے شروع ہوتا ہے۔ نکاح کے بعد ایک دوسرا جہان شروع ہوتا ہے, اور اس دنیا میں کچھ عادات ایسی ہیں جو اگر وقت پر ترک نہ کی جائیں، تو رشتہ خالی چھلکے کی مانند رہ جاتا ہے۔

آج ہم ان بیس عادات پر بات کریں گے, جن سے نکاح کے بعد دور رہنا نہ صرف بہتر ہے بلکہ ضروری ہے۔ اس میں اخلاقی غلطیاں بھی ہیں، نفسیاتی کجی بھی، اور معاشرتی رویے بھی۔ مقصد کسی کو شرمندہ کرنا نہیں، بلکہ آئینہ دکھانا ہے۔ تاکہ شاید کوئی رشتہ بچ جائے… کوئی خاندان محفوظ ہو جائے۔

عورتوں کی بیس مہلک عادات، رویے اور اعمال:

1.👈شوہر کو “کم تر” سمجھنا: جب بیوی ہر بات پر شوہر کو یہ جتانے لگے کہ وہ کم عقل ہے، کم کمانے والا ہے یا ناکام ہے، تو رشتہ عزت سے نہیں، زہر سے بھر جاتا ہے۔ شوہر کو نیچا دکھانا ایک زہریلا نشتر ہے جو ہر دن دل کو کاٹتا ہے۔

2.👈ماں باپ سے موازنہ: “میرے ابو ایسے کرتے تھے”، “میری ماں نے تو کبھی ایسا نہیں کہا”, یہ جملے رشتے کے قاتل ہیں۔ شوہر کے سامنے اپنے باپ کو مثالی بنانا، گویا شوہر کو باپ کے مقابل لا کھڑا کرنا، رشتہ کمزور کرتا ہے۔

3.👈شوہر کی ماں سے نفرت: اکثر عورتیں ساس کو دشمن سمجھ کر آتی ہیں۔ حالانکہ ماں وہی ہے جس نے شوہر کو جنم دیا۔ ماں سے دشمنی دراصل بیٹے سے بھی فاصلہ ہے۔ اور ایک ماں کو حقیر جاننا گویا مرد کی جڑ پر کلہاڑی مارنا ہے۔

4.👈شوہر کی کمائی کا مذاق اُڑانا: جب بیوی کہے: “بس اتنے ہی پیسے لائے ہو؟”، تو یہ صرف طنز نہیں، یہ مرد کی انا کی تذلیل ہے۔ عورت چاہے جتنا کما لے، مرد کا کردار بنیادی طور پر کفیل کا ہی ہوتا ہے, اس کردار کی توقیر ضروری ہے۔

5.👈پرانی محبتوں کی یاد: بعض عورتیں لاشعوری طور پر یا دانستہ ماضی کے قصے دہراتی ہیں۔ “کالج میں فلاں مجھے پسند کرتا تھا”, ایسی باتیں مرد کو کھا جاتی ہیں۔

6.👈جسمانی تعلق سے انکار بطور ہتھیار: نکاح کے بعد جسمانی تعلق ایک حق ہے، ایک جذباتی ضرورت۔ اسے سزا کے طور پر روکنا ظلم ہے۔ یہ صرف جسم کا نہیں، دل اور اعتماد کا مسئلہ بھی بن جاتا ہے۔

7.👈گھریلو کام سے نفرت: کھانا بنانا، گھر سمیٹنا, یہ غلامی نہیں، یہ رشتے کی ضرورت ہے۔ جو عورت ان امور کو تضحیک کا نشانہ بناتی ہے، وہ گھر کے بجائے ہوٹل کا کلچر لاتی ہے۔

8.👈ہر بات پر نخرہ یا روٹھ جانا: غیر ضروری ضد، روٹھنا اور بات چیت بند کرنا, یہ “کیوٹ” نہیں بلکہ “کرپٹ” رویہ ہے۔

9.👈غیر محرم مردوں سے بے تکلفی: سوشل میڈیا، کالز، یا پرانی دوستیاں, شادی کے بعد ان کی حدود طے کرنی ضروری ہیں۔ مرد صرف بے غیرت نہیں بنتا، بے اعتمادی سے رشتہ توڑ دیتا ہے۔

10.👈میکے کو حد سے زیادہ فوقیت دینا: ہر دوسرے دن میکے جانے کی ضد، شوہر کے خاندان کو کمتر سمجھنا، ایک بے توازن گھر کی بنیاد ہے۔

11.👈سوشل میڈیا پر نجی زندگی کی نمائش: شوہر کی تصویریں، جھگڑوں کے اسکرین شاٹس، رومینٹک پوسٹس, یہ محبت نہیں، مارکیٹنگ ہے۔

12.👈ہر بات پر جھوٹ بولنا: “میں بازار گئی تھی”، “امی بیمار ہیں”, اگر یہ جھوٹ ہیں تو رشتہ سچ پر کیسے ٹکے گا؟

13.👈دوستوں کے مشورے پر شوہر کو تنگ کرنا: “میری فرینڈ کے شوہر نے تو نئی گاڑی لے دی”، “انہوں نے تو سالگرہ پر دبئی گھمایا”, یہ تقابل شیطان کا راستہ ہے۔

14.👈شوہر کی حدود میں مداخلت: مرد کا موبائل چیک کرنا، دفتر کی ٹوہ لگانا، سپیس اور پرائیویسی نہ دینا, یہ بے اعتمادی کی بیماری ہے۔

15.👈بچوں کو شوہر کے خلاف کرنا: “تمھارے ابو ایسے ہیں”، “وہ تو بس اپنا سوچتے ہیں”, یہ زہر ہے، جو نسلوں میں سرایت کر جاتا ہے۔

16.👈دینی احکامات کو اپنی سہولت کے مطابق توڑنا: “پردہ میرے لیے نہیں”، “نماز کا ٹائم نہیں ملتا”, یہ صرف ذاتی غفلت نہیں، شوہر کے لیے آزمائش بھی ہے۔

17.👈شوہر کو جذباتی طور پر تنہا کرنا: جب مرد دل کی بات کرے تو مذاق اُڑانا، نظرانداز کرنا, یہ محبت نہیں، منافقت ہے۔

18.👈بےوقت مطالبات:

 مالی، جذباتی، یا جسمانی, ہر بات کا وقت ہوتا ہے۔ ضد سے مانگی گئی چیز زہر دیتی ہے۔

19.👈شوہر کے خاندان میں فتنہ پھیلانا:

نند، جیٹھانی، دیور, سب کے خلاف محاذ کھول دینا، خاندان کے تانے بانے بکھیر دیتا ہے۔

20.👈نکاح کو بلیک میلنگ کا ذریعہ بنانا: “مجھے چھوڑ دو”، “میں گھر جا رہی ہوں”, بار بار طلاق یا علیحدگی کی دھمکیاں رشتہ گٹر میں لے جاتی ہیں۔

Loading