Daily Roshni News

حامد میاں کو محبت بھی ہوئی تو پھوپھو کی بیٹی سے۔۔

دادی کی بات پتھر پر لکیر سمجھی جاتی تھی

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )حامد میاں کو محبت بھی ہوئی تو پھوپھو کی بیٹی عفت آرا سے. پھوپھو اپنے آتش فشانی مزاج کی وجہ سے خاندان بھر میں آفت کی پرکالہ مشہور تھیں. حامد میاں نے امی جانی سے صاف صاف کہہ دیا کہ شادی کروں گا تو صرف عفت آرا سے ورنہ کنوارہ مر جاوں گا. بہنوں نے سنا تو آسمان سر پر اٹھا لیا کہ بھائی یہ کیا اول فول بک رہے ہو عفت آرا کا مزاج جانتے بھی ہو ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا. لیکن حامد میاں بھی اپنی دھن کے پکے تھے، ٹس سے مس نہ ہوئے…

امی اور بہنوں نے ٹکا سا جواب دیا تو بھاگم بھاگ ابا میاں کے پاس پہنچے اور مدعا بیان کیا. ابا میاں اپنی ہمشیرہ اور بھانجی کے لچھن جانتے تھے کہ ایک سیر ہے تو دوسری سوا سیر، لیکن حامد میاں کو فورآ انکار بھی نہ کر پائے کہ کہیں برخوردار دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر کوئی گل نہ کھلا دیں…..

ابا میاں نے کہا بیٹا ان تلوں میں تیل نہیں، تمہاری پھوپھو لوگوں کا دماغ ساتویں آسمان پر رہتا ہے، ایک بار پھنس گئے تو اونچی دوکان پھیکا پکوان کا معنی خوب سمجھ جاو گے،  ہم ٹھہرے سفید پوش لوگ، تم مناسب سمجھو تو میں تمہارے چچا کے گھر بات چلاوں….

حامد میاں کے سر پر عشق کا بھوت سوار تھا، بولے “ابا میاں، عفت آرا نہیں تو کوئی بھی نہیں”. عشق اور مشک کہاں چھپائے چھپتے ہیں، آن کی آن میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح خاندان میں پھیل گئی، پھر جتنے منہ اتنی باتیں، ہر کوئی بھانت بھانت کی بولی بول رہا تھا. امی جانی اور ابا میاں کی جان پر بنی ہوئی تھی کہ اس ناگہانی آفت سے کیسے گلو خلاصی ہو.

پھوپھو تک بات پہنچی تو بولیں یہ منہ اور مسور کی دال، اپنی ہیرے جیسی عفت آرا اس کنگلے حامد میاں کو کبھی نہ دوں. عفت آرا نے ماں کے سامنے صدائے احتجاج بلند کی تو ماں بولی “بیٹی دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں، تم بس چپ چاپ تیل دیکھو اور تیل کی دھار دیکھو”….

عفت آرا کو ماں کی بات ایک آنکھ نہ بھائی اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑی- ادھر حامد میاں کو پھوپھو کے تیور پتہ چلے تو اسکے اوسان خطا ہو گئے، اور وہ ایسا طریقہ سوچنے لگا کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے… حامد میاں اور عفت آرا کی کیفیت ایسی تھی کہ بس دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی، دل کو دل سے راہ ہوتی ہے، عفت آرا اپنی دادی کے پاس جاتی ہے اور سارا حال بیان کرتی ہے….

دادی کی بات پتھر پر لکیر سمجھی جاتی تھی، پھوپھو نے بہت تاویلیں پیش کی لیکن سو سنار کی ایک لوہار کی کے مصداق پھوپھو کی ایک نہ چلنے دی گئی- دادی نے کہا جب میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی. دادی کا حکم ہی ایسا تھا کہ چٹ منگنی پٹ بیاہ والا ماحول بن گیا. حامد میاں خوشی سے جھوم اٹھے جبکہ عفت آرا کے دل میں بھی لڈو پھوٹ رہے تھے-

شادی کے بعد حامد میاں کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو گیا، عفت آرا کے بارے میں تمام قیاس آرائیاں سچ ثابت ہوئیں. بات کا بتنگڑ بنانا اور ایک کی دس سنانا عفت آرا کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا. اس نے حامد میاں اور اسکے گھر والوں کو تگنی کا ناچ نچا دیا….

حامد میاں کی امی اور بہنیں سر جوڑ کر بیٹھیں کہ اس گلے پڑے ڈھول سے کیسے نمٹا جائے. پھر جیسے لوہا لوہے کو کاٹتا ہے، ویسے ہی حامد میاں کی منجھلی بہن بسنت بہار نے عفت آرا سے ٹکر لینے کی ہامی بھر لی….

بسنت بہار اور عفت آرا برابر کے جوڑ تھے، برتن دھونے، کھانا پکانے اور گھر کی صفائیاں کرنے پر مقابلہ بازی شروع ہو گئی، دونوں ڈنکے کی چوٹ پر خود کو صحیح اور دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تل گئیں. پھر گھر میں وہ گھمسان کا رن پڑا کہ الا امان الحفیظ… حامد میاں کی امی جانی اپنی بھانجی کو بہو بنانے کے سپنے سجائے بیٹھی تھیں. ادھر نند کی بیٹی انکے سینے پر مونگ دل رہی تھی- یہ صورت حال دیکھ کر حامد میاں بھی سٹپٹا گئے لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت. یہ تو انہوں نے خود اپنے پاوں پر کلہاڑی ماری تھی، انہوں نے عفت آرا کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا کہ ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہونگے- اب مرتا کیا نہ کرتا والی کیفیت سے دو چار ہو رہے تھے، نہ تو بیوی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر سکتے ہیں اور نہ امی جانی انکی بات پر کان دھرتی تھی، اور بہن کو کچھ کہنا تو بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف تھا.

ادھر عفت آرا اپنے میاں کو مٹی کا مادھو سمجھتی تھی جبکہ بہنیں اور امی جانی کی نظر میں وہ جورو کا غلام تھا. اس سارے معاملے میں ابا میاں حسب معمول کانوں میں تیل ڈالے بیٹھے تھے، پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی اپنی ڈفلی، اپنا اپنا راگ والا ماحول دیکھتے رہتے تھے، وہ تو خود ہمیشہ سے امی جانی کے آگے بھیگی بلی بنے رہے تھے اور گھر میں انکا وجود نہ تین میں نہ تیرہ میں والا تھا…

عفت آرا کو جب اپنی پسپائی نظر آنے لگی تو اس نے فوراً پینترا بدلا اور بسنت بہار کے رشتے کیلئے دوڑ دھوپ شروع کر دی، پہلے تو امی جانی کا ماتھا ٹھنکا کہ یہ کیا انہونی ہو گئی ہے، پھر وہ اپنے تئیں مطمئن ہو گئیں کہ شاید بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹے اور بسنت بہار اپنے گھر کی ہو جائے. بسنت بہار کی جانب سے اب بھی مسلسل حملے جاری تھے….

ابا میاں زیادہ دیر تک آنکھیں بند کئے نہ رہہ سکے اور گھر کے معاملات کو پرانی ڈگر پر لانے کا بیڑا اٹھانے کا تہیہ کر لیا، اور چپکے سے اپنی بہن کو ساری روداد سنا ڈالی. پھوپھو تو کب کی بھری بیٹھی تھیں، عفت آرا انکو گاہے بگاہے حالات سے آگاہ رکھتی تھی، بھائی سے کہنے لگیں،  “ذاہد میاں یہ تمہارا ہی حوصلہ ہے جو زیب النساء سے نبھا رہے ہو اور میری زبان بھی تمہاری وجہ سے بند ہے ورنہ میری بیٹی کے ساتھ اس گھر میں جو سلوک ہو رہا ہے میں تو اینٹ سے اینٹ بجا دوں سب کی…. لیکن بھائی اور داماد کی معصوم شکلیں آنکھوں کے آگے گھومنے لگتی ہیں”. ابا میاں نے کہا “آپی تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، دونوں فریق قصور وار ہیں. اور یہ وقت حساب چکانے کا نہیں، زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، آج مرے کل دوسرا دن، سو آپ دل بڑا کر کے کوئی مفاہمت کی راہ تلاش کریں”….

اگلے دن پھوپھو اپنے بھائی کے گھر آن وارد ہوئیں تو امی جانی اور بسنت بہار اسے کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ سمجھے، لیکن پھوپھو نے سب گھر والوں کو اکٹھا کرتے ہوئے کہا کہ لڑائی کو جتنا بڑھاوا دو یہ بڑھتی جاتی ہے، یہ کام میں اور زیب النساء بھی کر چکے ہیں جب یہ بیاہ کر اس گھر میں آئی تھی، نتیجہ نفرت کے سوا کچھ نہیں ملا اور وقت گزرنے کے بعد ہاتھ ملنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا. جس طرح گھر عورت کے دم سے آباد ہوتے ہیں ویسے ہی بربادی میں بھی زیادہ ہاتھ عورتوں کی آپس کی چپقلش کا ہوتا ہے. تھوڑے کہے کو بہت سمجھو اور آپس میں شیر و شکر ہو کر رہو….

امی جانی اور بہنیں پھٹی پھٹی آنکھوں سے پھوپھو کا یہ خوبصورت روپ دیکھ رہی تھیں، عفت آرا شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی کہ اس نے آتے ہی محاذ کیوں کھول لیا، بسنت بہار بھی کاٹو تو لہو نہیں کی تصویر بنی بیٹھی تھی کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دینا بالکل بھی دانشمندی کا کام نہیں تھا.

امی جانی نے اٹھ کر اپنی نند کو گلے سے لگالیا، عفت آرا بھی ساس سے لپٹ گئی، ابا میاں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور حامد میاں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یہ نظارہ دیکھ رہے تھے. سچ کہتے ہیں میٹھے بول میں جادو ہوتا ہے، مل جل کر رہنے میں ہی عافیت اور اتفاق میں برکت ہے….

پھوپھو اپنے تئیں سارے معاملات نمٹا کر اپنے گھر روانہ ہو گئیں، حامد میاں اور ابا میاں بھی مطمئن ہو گئے کہ اب راوی چین ہی چین لکھے گا- اگلی صبح حامد میاں کی آنکھ شور شرابے سے کھل گئی، جلدی سے اٹھ کر میدان جنگ کی طرف لپکے، کچن میں عفت آرا اور بسنت بہار کسی بات پر ایک دوسری کے لتے لے رہی تھیں. حامد میاں نے معاملہ ٹھنڈا کرنے کی بہت کوشش کی لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا بھلا، خاموشی سے واپس اپنے کمرے میں آئے اور کان لپیٹ کر سو گئے- دونوں خواتین کی لڑائی بدستور جاری تھی اور ان کی آوازیں پورے گھر میں گونج رہی تھیں-

(عین حیدر)

Loading