Daily Roshni News

شاہکار افسانہ ابا جان۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ڈاکٹر طاہر مسعود۔۔۔قسط نمبر2

شاہکار افسانہ ابا جان

تحریر۔۔۔۔ڈاکٹر طاہر مسعود
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ شاہکار افسانہ ابا جان۔۔۔ تحریر۔۔۔۔ڈاکٹر طاہر مسعود)لوٹتے، جب ہم لوگ سو جاتے تھے۔ ایک آدھ ہی بار میں نے انہیں رات کے وقت گھر میں دیکھا تھا۔ اتفاق سے دروازہ میں نے ہی کھولا تھا۔
وہ مذ ہبی آدمی بھی نہیں تھے۔ انہیں میں نے عید، بقر عید کے سوا کبھی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔ اس کے بر عکس اتنا گہرے نہ ہی آدمی تھے۔ نماز بڑی پابندی سے پڑھتے تھے اور ہاتھ اٹھا کر دعا ما لکھتے ہوئے آب دیدہ ہو جاتے تھے۔ شہر کے علماء سے ، پر وفیسروں سے، ان کی گہری دوستی تھی۔ یہ لوگ اکثر ہمارے گھر آیا کرتے تھے۔ مولانا کوثر کے تو وہ عاشق تھے۔ ان کا نعتیہ کلام جسے مولا نا ترنم سے پڑھا کرتے تھے، اتہا تو اس کے دیوانے تھے۔ مولانا کوثر کا نعت پڑھنے کا انداز عجیب والہانہ سا تھا۔ آنکھیں بند کر لیتے اور دونوں ہاتھ ادب سے ناف کے قریب باندھ لیتے، پھر اپنی مترنم آواز میں اپنی ہی لکھی ہوئی نعت پڑھتے ۔نہ جنت نہ باغ ارم چاہتا ہوں مدینہ خدا کی قسم چاہتا ہوں
میں دیکھتا تھا کہ انا کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو بہہ رہے ہیں۔ کجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ روتے کیوں ہیں۔ اب یہی کیفیت میری ہے۔ جس نعت میں روضہ رسول پہ جانے کی ترپ پاتا ہوں، سن کر سینے میں ہوک اٹھتی ہے اور اٹک رواں ہو جاتے ہیں۔
انا ملنے ملانے کے بہت شوقین تھے۔ رشتے داروں، دوستوں سے پڑوسیوں سے وہ ایسے ملتے کہ ان کی اپنائیت اور محبت سے دوسرے متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے۔ رشتے داروں کو تو وو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملتے اوربہار کے لوگوں سے تو وہ بڑے رسان سے کوئی نہ کوئی
رشتے داری نکال لیتے۔
ابا کی دو بہنیں تھیں، ان کو بہت چاہتے ، ان میں سے کسی کی طبیعت خراب ہو جاتی تو سوتے میں سر میں تیل ڈال کر ہولے ہولے دباتے رہتے۔ آنکھ کھل جاتی تو پھر بھی بڑ بڑا کر اٹھ بیٹھتیں۔
بھیا آپ یہ کیا کر رہے ہیں ؟“کچھ نہیں، تم سو جاؤ، ابھی تمہارے سر کا درددور ہو جائے گا“۔ وہ سر دبانے پر بضد رہتے اور اپنی بات منوا کر دم لیتے۔ ایسی ہی خدمت وہ دادا اور دادی کی کرتے تھے۔ ان کے پاؤں دابنے مان کے کپڑے دھوتے۔ مجھے یاد ہے، ایک بار کسی دوسرے شہر گئے ہوئے تھے، وہاں سے مجھے خط لکھا جس میں مجھے نصیحت کی تھی کہ : ” بیٹا، دادا کی خدمت کیا کرو، خدمت میں راستہ چلتے کوئی مل جاتا تو گھنٹوں اس سے گفتگو کیا کرتے تھے ۔ گھر سے نکلتے تو دکان داروں سے ملاقات کرتے ، ان کے کاروبار کا حال پوچھتے ، انہیں مشورے دیتے۔ وہ گھر سے نکلتے تو بہت مشکل سے لوٹ کر آتے تھے اور گھر والے جانتے تھے کہ وہ لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہوں گے۔ اس کے بر عکس ابی کو ملنے ملانے کی فرصت ہی نہ تھی۔ رشتے داروں کے ہاں بھی وہ خال خال جاتے تھے۔ البتہ جس پر ان کا دل آجاتاہ اس کے ہو رہتے۔ ملازموں پر اندھا اعتماد کرتے تھے۔ وکان پر جو آدمی کیش پہ بیٹھتا تھا، جانتے تھے کہ وہ پیسے مجھاتا ہے لیکن یہ آنکھیں چرا لیتے تھے اور اسے کچھ نہ کہتے تھے۔ جس سے دوستی ہو جاتی، اس پر جان
چھڑکتے تھے۔ وکان اور اخبارات کی تقسیم کے نظام کی دیکھ بھال کے لیے انہوں نے ایک منیجر رکھا تھا، حکمت اس کا نام تھا۔ اس پر ایسا اعتماد ہو گیا تھا کہ ہمارے گھر کے عقب میں اسے ایک گھر بناکر دے دیا تھا۔ آج اپنی کا چھوڑا ہوا سارا کار و بار اسی کے
قبضے میں ہے۔
جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بنا تو اس سے پہلے ہی ہم کراچی چلے آئے اور سارا کاروبار وہیں رہ گیا۔ حکمت آن اس کا مالک ہے۔ حکمت کو گھر بنا کر دینے کے ہمارے دادا بہت مخالف تھے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اتی سمار اکار و بارا پانی جذباتیت میں گٹار ہے ہیں۔ ابی ، دادا کو پر کاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتے تھے اور دادا کو اس کا شدید تقلق تھا۔ وہ اونچا سکتے تھے اور جب تک کوئی بات بیچ کر نہ کہی جائے ، ان کی سمجھ میں مشکل ہی سے آتی تھی۔ دادا چاہتے تھے کہ ہر اہم معاملے میں اُن سے مشورہ کیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ ان کے پاس تجربے کی انمول دولت ہے اور انہوں نے دنیا دیکھ رکھی ہے، اس لیے امور دنیا کواتی سے بہتر سمجھتے ہیں، جب کہ اپنی کا کہنا تھا کہ ان سے مشورہ لینا پورے محلے سے مشور و لینا ہے۔ ان کا اشارہ دادا کے اونچا سننے کی طرف تھا۔ دادا کو یہ بات بہت بری لگتی تھی۔ دونوں باپ بیٹے میں اکثر کوئی نہ کوئی تنازعہ چھڑا رہتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک تنازعہ اس بات پر بھی اٹھا تھا کہ ریلوے کے ایک ملازم جو بزرگ سے تھے، کسی دوسرے شہر سے تبادلہ ہو کر یہاں آئے تھے۔ ان کے رہنے کو گھر نہ تھا۔ ابی سے ان کی دوستی ہوئی تو ایک دن ان کا سارا سامان اٹھا کر اپنے گھر لے آئے کہ آپ یہیں رہے۔ جو روکھی سوکھی کھاتے ہیں، آپ کو بھی پیش کر دیں گے۔ وادا کو ایک اجنبی کو گھر لانا ایک آنکھ نہ بھایا۔ وہ ناراض ہو گئے۔ ابی نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ پڑھے لکھے آدمی ہیں، بچوں کو پڑھا دیا کریں سے لیکن دادا کی سمجھ میں یہ دلیل نہ آئی۔ بعد میں وہ بدل گئے تھے۔ پہلے بچوں کو بری طرح مارتے تھے۔ پھر انہوں نے مارنا چھوڑ دیا تھا۔ کہتے تھے مار سے بچوں کی تربیت نہیں ہوتی۔ اس کے بعد انہوں نے سمجھانے بجھانے کا انداز اپنا لیا تھا۔ ایک مرتبہ میں گھر والوں کو بتائے بغیر فلم دیکھنے چلا گیا۔ ان کے کسی دوست نے بتادیا۔ انہوں نے بلا کر مجھ سے پو چھا کہاں گئے تھے ؟“ میں نے سر جھکا لیا۔
کیا کیا ایسی جگہ گئے تھے کہ بتا نہیں سکتے ؟ میں بھلا کیا جواب دیتا، چپ رہا۔ پھر بولے آکند و فلم دیکھنی ہو تو مجھے بتانا۔ میں خود ٹکٹ خرید کر تمہیں سنیما ہاؤس میں بٹھا کر آؤں گا اور واقعی اگلی بار انہوں نے ایسا ہی کیا۔ پھر تو وہ میرے دوست ہو گئے تھے۔ میں اپنی ہر ایسی پریشانی جو کسی اور سے نہ کہہ سکتا تھا، انہیں تحریری طور پر بتادیا کرتا تھا۔
آٹھویں جماعت میں، میں نے ایک فلم ایکٹر میں کو خط لکھ دیا تھا، وہ خط ہیڈ ماسٹر صاحب کے ہاتھ لگ گیا، انہوں نے بھری جماعت میں مجھے رسوا کیا۔ میں نے اسکول جانا بلکہ کمرے سے نکالنا بھی چھوڑ دیا۔ اتنی شرمندگی تھی کہ زندگی سے دل اچاٹ ہو گیا تھا۔ ایک رات میں سورہا تھا کہ ابی نے نیند سے جگا کر مجھے بلا لیا۔ وہ کھانا کھارہے تھے۔ لقمہ منہ میں ڈالتے ہوئے اور اسے تیزی سے چہاتے ہوئے انہوں نے کہا: “سنا ہے تم نے گھر سے نکلنا چھوڑ دیا ہے۔ ایسی کیا۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اپریل 2025

Loading