مدارس: روشنی کے مینار یا ظلم کے اڈے؟
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ مدارس: روشنی کے مینار یا ظلم کے اڈے؟ ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم)پاکستان کے معاشرے میں دینی مدارس ایک طویل عرصے سے روحانی، مذہبی اور اخلاقی تربیت کا گہوارہ سمجھے جاتے رہے ہیں۔ یہاں سے ہزاروں حفاظ قرآن، علمائے کرام اور دینی رہنما نکلے جنہوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں دین کا پیغام پھیلایا۔ مگر افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان مقدس اداروں کی حرمت کچھ ایسے بھیڑیوں کے ہاتھوں پامال ہو رہی ہے جنہوں نے علم و دین کو تجارت، تسلط اور ہوس کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
حال ہی میں چالیار میں مدرسے کے ایک استاد نے معصوم بچے کو اس قدر پیٹا کہ وہ جان کی بازی ہار گیا۔ اسی طرح ہری پور میں ایک نابینا، پانچ سالہ بچے کو اس کے ہی قاری نے جنسی درندگی کا نشانہ بنایا۔اکثر سوشل میڈیا پر قاریوں کی مساجد میں بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے کی ویڈیوز بھی دلھائی دیتی رہتی ہیں۔چند ایک تو اس قدر دیدہ دلیر ہیں کہ بچوں کے گھر بیٹھے انہیں پڑھا رہے ہیں اور ان کا استحصال بھی کر رہے ہیں۔یہ واقعات صرف جرم نہیں، انسانیت پر داغ اور دین اسلام کی بدنامی کا باعث ہیں۔
قرآن کریم کا بنیادی پیغام محبت، ہمدردی اور انصاف ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا”
“مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔”
ایک معلم کا اصل کام سکھانا، تربیت کرنا، اور کردار سنوارنا ہے۔ آپ ﷺ نے کبھی کسی بچے پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
“میں دس سال رسول اللہ ﷺ کے ساتھ رہا، کبھی انہوں نے مجھے نہ مارا، نہ ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا۔”
تو پھر آج کے یہ مدرسین، یہ قاری حضرات، یہ اساتذہ جو نبی کا نام لے کر بچوں کو تعلیم دیتے ہیں کیوں زہریلے بن گئے ہیں؟ کیوں ان کے ہاتھ بچوں کے جسموں پر زخم چھوڑ جاتے ہیں اور ان کی درندگی روحوں پر داغ؟
مدارس کا قیام دین کی خدمت کے لیے ہوا تھا۔ ان کا مقصد تھا:بچوں کو قرآن و سنت کی تعلیم دینا،اخلاقی تربیت کرنا،ایک صالح مسلمان تیار کرنا
مگر جب مدارس بے لگام ہو جائیں، جب ان پر نہ ریاستی نگرانی ہو اور نہ ہی شفاف نظام، تو وہ جگہ جہاں نبی کا کلام پڑھایا جاتا ہے، وہ ظلم و جبر کا گڑھ بن جاتی ہے۔
یہ سوال اٹھانا اب ناگزیر ہے کہ
کیا آج کے مدارس واقعی حفاظ اور علماء تیار کر رہے ہیں؟ یا جنسی درندے، قاتل اور نفسیاتی مریض؟
مختلف رپورٹس کے مطابق پچھلے 10 سالوں میں پاکستان میں سیکڑوں مدرسوں سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی، جسمانی تشدد اور یہاں تک کہ قتل کے واقعات سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے اکثر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے وجہ مدرسے کا اثر و رسوخ،والدین کا ڈر یا لاچاری،بچوں کا خوف اور شرمندگی،سماجی بدنامی۔
ایسی خاموشی جرم کو تقویت دیتی ہے۔ یہ درندے جانتے ہیں کہ ان کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوگی، لہٰذا وہ مزید بے خوف ہو کر بچوں پر ظلم کرتے ہیں۔
اسلام نے بچوں کی عزت، تحفظ اور حقوق کا واضح تصور دیا ہے۔ جو شخص معصوم بچوں پر ظلم کرے، وہ صرف مجرم نہیں، بلکہ شرعاً حدود کا مستحق ہے۔زنا یا بدفعلی کی سزا (اگر جرم ثابت ہو جائے) قرآن کے مطابق:
“الزَّانِيَةُ وَالزَّانِي فَاجْلِدُوا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ”
(النور: 2)
“زانی مرد اور زانی عورت کو سو کوڑے مارو۔”
اگر بچہ نابالغ ہو، کمزور ہو، یا نابینا ہو، تو ظلم کی شدت اور مجرم کی سزا دونوں میں اضافہ ہونا چاہیے۔
علماء کی اکثریت کا موقف ہے کہ اگر جنسی زیادتی کے ساتھ ساتھ تشدد یا قتل بھی ہو تو شرعاً سزاۓ موت دی جا سکتی ہے۔ ایسی سزا صرف انصاف کا تقاضا نہیں بلکہ معاشرے کے لیے عبرت بننے کا ذریعہ بھی ہے۔
مدارس کے تقدس کو قائم رکھنا صرف دینی حلقوں کی نہیں، بلکہ ریاست، والدین اور پوری قوم کی ذمہ داری ہے۔ ان کے لیے فوری اقدامات درکار ہیں: مدارس کی رجسٹریشن اور نگرانی۔ہر مدرسے کو حکومتی نگرانی میں لانا چاہیے، جس میں بچوں کے تحفظ کے لیے واضح اصول ہوں۔ اساتذہ کی اسکریننگ، نفسیاتی، تعلیمی ٹیسٹس اور تربیت۔قاری یا مدرسہ استاد بننے کے لیے صرف تجوید یا حفظ کافی نہیں۔ نفسیاتی اور اخلاقی معیارات کو لازمی قرار دیا جائے۔ بچوں کے لیے ہیلپ لائن اورایسا پلیٹ فارم بنے جہاں بچے یا والدین بلا خوف شکایت درج کروا سکیں۔
والدین کا فرض ہے کہ وہ صرف “دینی ادارہ” کہہ کر آنکھیں بند نہ کریں۔
بچوں کی بات سنیں۔ اگر وہ مدرسے یا قاری کے پاس جانے سے انکار کریں، تو زبردستی نہ کریں۔ وجہ جانیں، ان پر اعتماد کریں، ان کی حفاظت کریں۔
حالیہ سالوں میں آن لائن قرآن کلاسز کا رجحان بڑھا ہے۔ کچھ حد تک یہ محفوظ متبادل ہیں۔لیکن آن لائن کلاس کی نگرانی والدین کریں،ویڈیو کال ہمیشہ کھلی جگہ پر ہو
،بچوں کو اچھے اور برے لمس کی تربیت دی جائے،اگر قاری کے رویے میں کوئی غیر معمولی بات ہو، فوراً رابطہ ختم کر دیں۔
اگر مدارس معصوموں کو قرآن نہیں، زخم دیتے ہیں،ایمان نہیں، ڈر سکھاتے ہیں،کردار نہیں، خاموشی اور شرمندگی دیتے ہیں۔تو ایسے مدارس کا وجود ہمارے معاشرے پر بوجھ ہے۔ اگر اصلاح ممکن نہیں، اگر نگرانی کا نظام قائم نہیں ہو سکتا، تو ان اداروں کو بند کرنا بہتر ہے۔ والدین خود قرآن پڑھا سکتے ہیں، یا تربیت یافتہ آن لائن اساتذہ کی خدمات لے سکتے ہیں۔ دین کی تعلیم تبھی مؤثر ہے جب وہ شفقت، کردار، اور رحم کے ساتھ دی جائے۔
آج ہمیں اپنے معاشرے، اپنے نظام تعلیم، اور دینی اداروں پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔
ہمیں اپنے بچوں کی حفاظت ہر حال میں کرنی ہے۔ چاہے اس کے لیے کچھ سخت فیصلے کیوں نہ لینے پڑیں۔
یہ چند واقعات نہیں خاموش چیخیں ہیں ان بچوں کی جو اب بول نہیں سکتے، جو ڈر کے مارے کچھ کہہ نہیں سکتے، یا جو قبر میں جا چکے ہیں۔
خدارا! اپنے بچوں کو اندھیرے میں نہ دھکیلیں۔
اگر وہ مدرسے یا اسکول نہ جانا چاہیں، تو زبردستی نہ کریں۔ ان کی بات سنیں، ان کی کیفیت سمجھیں۔بچوں کی حفاظت صرف جسمانی نہیں، جذباتی، روحانی اور ذہنی تحفظ بھی ہمارا فرض ہے۔
اسلام ظلم کا دین نہیں، بلکہ رحمٰن کے دین کا نام ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے بچوں کو ہر شیطان صفت درندے سے محفوظ رکھے، ہمارے تعلیمی اداروں کو امن، کردار اور محبت کے مراکز بنائے، اور ہم سب کو ظلم کے خلاف بولنے، لڑنے اور انصاف قائم کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔