پارسی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹر نیشنل )پارسی، پاکستان کی ایک چھوٹی لیکن تاریخی لحاظ سے اہم کمیونٹی، جنوبی ایشیا کی تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ پارسی اصل میں ایران (قدیم فارس) سے تعلق رکھتے ہیں اور زرتشتی مذہب کے پیروکار ہیں، جو دنیا کے قدیم ترین مذاہب میں سے ایک ہے۔ زرتشتی مذہب خیر و شر کی جنگ اور نیک زندگی گزارنے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ تقریباً ایک ہزار سال قبل فارس میں اسلامی فتوحات کے بعد پارسیوں نے ہندوستان کا رخ کیا تاکہ اپنے مذہب اور ثقافت کو محفوظ رکھ سکیں۔
پاکستان میں پارسیوں کی تاریخ
پارسیوں کی بڑی تعداد برطانوی ہندوستان کے مغربی حصوں، خاص طور پر گجرات، سندھ اور مہاراشٹرا کے ساحلی علاقوں میں آباد ہوئی۔ کراچی، جو اب پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، پارسی آبادی کا ایک اہم مرکز بن گیا۔ برطانوی دور میں پارسی کمیونٹی تجارت، صنعت اور کاروبار میں ممتاز حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ 1947 میں برصغیر کی تقسیم اور پاکستان کے قیام کے بعد بھی کراچی اور دیگر پاکستانی شہروں میں پارسی کمیونٹی کی ایک چھوٹی لیکن اہم تعداد برقرار رہی، جبکہ بہت سے پارسی ہندوستان منتقل ہوگئے۔
پاکستان کی ترقی میں پارسیوں کا کردار
پارسی کمیونٹی نے پاکستان کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں:
-
*کاروبار اور صنعت*: پارسی خاندانوں نے کراچی کے صنعتی اور مالیاتی ڈھانچے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا۔ کوواسجی خاندان، مثال کے طور پر، شپنگ اور تجارت کے شعبے میں معروف تھا۔ اردشیر کوواسجی، ایک مشہور تاجر اور کالم نگار، پاکستان کے سب سے بااثر دانشوروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔
-
*فلاحی کام*: پارسی کمیونٹی اپنے فلاحی کاموں کے لیے بھی جانی جاتی ہے۔ انہوں نے پاکستان میں اسپتال، اسکول اور دیگر ادارے قائم کیے جو آج بھی ہر طبقے کے لوگوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ “ماما پارسی گرلز سیکنڈری اسکول” جو 1918 میں قائم ہوا، کراچی کا ایک ممتاز تعلیمی ادارہ ہے۔
-
*تعلیم*: پارسی ہمیشہ تعلیم کے حامی رہے ہیں، خاص طور پر خواتین کی تعلیم کے۔ پاکستان میں بہت سی پارسی خواتین، جیسے 1969 میں “سائیکل پر سوار پارسی لڑکی “، ایک جدید اور ترقی پسند سوچ کی عکاس ہیں، جو اس وقت کے جنوبی ایشیائی معاشرے میں نایاب سمجھی جاتی تھی۔
-
*طب*: پارسی کمیونٹی نے پاکستان میں طب کے شعبے میں بھی اہم خدمات انجام دی ہیں۔ ڈاکٹر جمشید نسرواں جی مہتا، کراچی کے پہلے منتخب میئر، نے شہر میں صحت عامہ کی سہولیات اور شہری ڈھانچے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ثقافتی اثرات
ثقافتی لحاظ سے، پاکستان میں پارسی ایک منفرد شناخت رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنے زرتشتی مذہبی رسومات کو برقرار رکھا، جن میں نوروز (فارس کا نیا سال) اور گہنبار جیسے تہوار شامل ہیں۔ ان کے آتش کدے، جو زرتشتیوں کی عبادت گاہیں ہیں، پاکستان میں چند مقامات پر موجود ہیں، خاص طور پر کراچی میں۔
پارسیوں کا منفرد کھانا، جو ایرانی اور بھارتی ذائقوں کا امتزاج ہے، اور ان کی روایتی پوشاک بھی ان کی شناخت کا حصہ ہیں۔ تاہم، وقت کے ساتھ ساتھ پارسی کمیونٹی نے خود کو کراچی جیسے شہری مراکز کی کثیر الثقافتی فضا میں ضم کر لیا ہے۔
کمیونٹی کو درپیش چیلنجز
اگرچہ پارسی کمیونٹی نے پاکستان کی ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا ہے، لیکن ان کی تعداد میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ اس کی وجوہات میں کم شرح پیدائش، دیگر ممالک کی طرف ہجرت (جیسے برطانیہ، کینیڈا، اور امریکہ) اور شادی کے بعد مذہبی شناخت سے دوری شامل ہیں۔
مزید برآں، ایک مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے، پارسیوں کو پاکستان میں مذہبی اور ثقافتی شناخت کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر ملک میں بڑھتی ہوئی مذہبی قدامت پسندی کے دور میں۔ اس کے باوجود، ان کی مضبوط کمیونٹی کے رشتے اور ثقافتی ورثے نے انہیں اپنی شناخت اور خدمات کو برقرار رکھنے میں مدد دی۔
1969 میں پارسی لڑکی کی تصویر کی علامت
1969 میں کراچی کی ایک نوجوان پارسی لڑکی کی سائیکل پر سوار تصویر ایک طاقتور علامت ہے۔ 1960 کی دہائی میں پاکستان خاص طور پر صدر ایوب خان کے دور میں تیزی سے جدیدیت کی طرف بڑھ رہا تھا، اور کراچی ایک بین الاقوامی میٹروپولیس بننے کے راستے پر تھا۔ سائیکل پر سوار ایک نوجوان پارسی لڑکی پارسیوں کے ترقی پسند اقدار اور خواتین کی تعلیم و آزادی کی علامت ہو سکتی ہے، خاص طور پر ایک ایسے وقت میں جب جنوبی ایشیاء میں سماجی طور پر قدامت پسندی غالب تھی۔
وراثت اور مستقبل
آج پارسی کمیونٹی، اگرچہ تعداد میں کم ہے، لیکن پاکستان میں ایک معزز اور بااثر گروپ کے طور پر جانی جاتی ہے۔ کاروبار، فلاحی کام، تعلیم، اور شہری زندگی میں ان کی خدمات پاکستان کی تاریخ کا لازمی حصہ ہیں۔ پارسیوں کے اتحاد، خیرات، اور ترقی کے اصول آج بھی پاکستان کے موجودہ مسائل کے حل کے لیے متعلقہ ہیں۔
پارسی کمیونٹی کے ثقافتی اور مذہبی روایات پاکستان کے کثیر الثقافتی ورثے کی ایک علامت ہیں۔