Daily Roshni News

*شمس تبریزؒ، رُومیؒ اور درویش*

*شمس تبریزؒ، رُومیؒ اور درویش*

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیو ز انٹرنیشنل )مولاناجلال الدین رُومیؒ تصوف کی دنیا کی عظیم شخصیت ہیں اور اتنے ہی بڑے شاعر بھی۔ سکول، کالج کے زمانے سے مولانا رومؒ اور حضرت شمس تبریزؒ کی شخصیت کے حوالے سے ایک انوکھی سی کشش محسوس ہوتی رہی ہے۔ مرشد گرامی حضرت خواجہ محمد نجم الدین کوریجہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے شائد یہ واقعہ پہلی بار سنایا تھا، بعد میں بہت بار مختلف جرائد میں اسے پڑھا۔ کہا جاتا ہے کہ جناب شمس تبریزؒ پہلی بار مولانا رُومیؒ کے مکتب میں ان سے ملے۔گرمی کا موسم تھا، مولانا اس وقت خانقاہ کے صحن میں تالاب کے قریب بیٹھے کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے، ان کے گرد بلند پایہ علمی کتابوں کا ڈھیر لگا تھا۔ شمس نے بے نیازی سے پوچھا،’’ایں چیست؟ (یہ کیا ہے؟)‘‘مولانا رُومیؒ نے شائد اپنا وقت بچانے کے لیے ایک جملہ بول دیا:’’ایں آں علم است کہ تو نمی دانی (یہ وہ علم ہے جسے تم نہیں جانتے)‘‘بعض روایات میں ہے کہ اس پرشمس تبریزؒ نے چند کتابیں اٹھا کر پانی میں پھینک دیں۔ اس پر سب ہکا بکا رہ گئے ۔نایاب قلمی نسخے تھے، پانی سے سیاہی دھل جانا یقینی تھا۔ مولانا کے شاگردوں نے شورمچایا تو شمس تبریزؒ نے تالاب سے کتابیں نکال کر واپس ان کے پاس ڈال دیں۔ کتابوں کا دھلنا تو درکنا ر، وہ بھیگی تک نہیں تھیں۔ اس پر حیرت زدہ ہو کر مولانا جلال الدین رُومیؒ نے پوچھا،’’ایں چیست؟‘‘ شمس تبریزؒ نے مسکرا کر جواب دیا،’’ایں آں علم است کہ تو نمی دانی (یہ وہ علم ہے جسے تم نہیں جانتے)‘‘

روایت کے مطابق شمس تبریزؒ یہ کہہ کر چل دیے، مگر مولانا رُومیؒ اپنی علمی شان بھول کر پیچھے بھاگے اور اپنی غلطی کی معافی مانگی اورمرید بننے کی خواہش ظاہر کی۔ شمس تبریزؒ نے انہیں گلے سے لگایا اور کہا، میں تو خود ایک عرصے سے تیری تلاش میں ہوں۔ اس دلچسپ واقعے کے بعد مختلف روایات ہیں جو مولانا رُومیؒ اور جناب شمس تبریزؒ کے روحانی تعلق اور شیخ، مرید کی الفت کے انوکھے قصوں کو بیان کرتی ہیں۔ شمس تبریزؒ مجذوبانہ شان والے بزرگ تھے، جب کہ مولانا رُومیؒ شہر کے سب سے بڑے عالم دین ۔ ان کے بے شمار شاگرد تھے اور شہر کی اشرافیہ بھی ان کی معتقد تھی۔ لوگ شمس تبریزؒ کے مخالف ہوگئے. انہیں لگتا تھا کہ اس فقیر آدمی سے تعلق مولانا رُومیؒ جیسی بڑی علمی شخصیت کو زیب نہیں دیتا۔ مولانا رُومیؒ کا بڑا بیٹا بہاالدین شمس تبریزؒ کا مرید اور مداح تھا، تاہم چھوٹا بیٹا گرم مزاج علاؤالدین مختلف وجوہات کی بنا پرجناب شمس سے بیزار تھا۔ بہرحال اس حوالے سے مختلف روایات ملتی ہیں۔ شمس تبریزؒ کو شہر چھوڑ کر جانا پڑا۔ مولانا رُومیؒ اس قدر دل گرفتہ ہوئے کہ انہوں نے کہیں آنا جانا اور تقریر کرنا چھوڑ دیا۔ ان کا بڑا بیٹا مرشد کی تلاش میں نکلا اور دمشق، شام سے حضرت شمس تبریزؒ کو ڈھونڈ کر مجبور کر کے لے آیا۔ اس کے سال ڈیڑھ بعد ہی شمس تبریزؒ پراسرار طور پرغائب ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ مولانا کے ناخلف چھوٹے بیٹے نے کچھ اور لوگوں کے ساتھ مل کرشمس کو قتل کر دیا۔ مولانا رُومیؒ خاصا عرصہ شدید غم اور صدمہ کی کیفیت میں رہے، پھر اپنا اظہار شاعری میں کیا اور وہ کلام لکھا جو امر ہوگیا۔ مولانا کی فارسی غزلوں کا مجموعہ ”دیوانِ شمسؒ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔ مولانا رُومیؒ کا ایک شعر بڑا مشہور ہوا جو جناب شمس تبریزؒ کے مرتبے کا غماز ہے:

مولوی ہرگز نہ شد مولائے رومؒ

تا غلام شمس تبریزؒی نہ شد

ترجمہ: مولوی (جلال الدین ) کبھی مولائے رومؒ نہ بن سکا، جب تک شمس تبریزؒ کا غلام نہ ہوا۔

Loading