آخری ڈبہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )گرمیوں کی آمد تھی۔ وہی پرانی چھٹیاں، وہی پرانا سفر۔
ہر سال کی طرح، والدین نے اپنے چھوٹے بیٹے کو ٹرین میں بٹھا کر نانی اماں کے پاس بھیجنے کا منصوبہ بنایا۔
لیکن اس بار کچھ مختلف ہوا۔
چھوٹے قد، بڑی آنکھوں اور خود اعتمادی سے بھرے لہجے میں بچے نے کہا:
“ابو… امی… اب میں بڑا ہو گیا ہوں۔ کیا اس سال میں اکیلا نانی کے پاس جا سکتا ہوں؟”
ماں کی آنکھ میں ایک جھجک سی لہرائی، اور باپ کے چہرے پر خاموشی کی ایک لہر دوڑ گئی۔
لیکن پھر… باپ نے بیٹے کی آنکھوں میں جھانکا، اور ماں نے ایک دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلا دیا۔
اگلے دن وہ پلیٹ فارم پر پہنچے۔ والد نے اپنے مخصوص انداز میں ہدایات دینی شروع کیں:
“بیٹا… کسی اجنبی سے بات نہ کرنا، کھڑکی سے سر نہ نکالنا، پانی بوتل سے ہی پینا، اگر کچھ ہو جائے تو…”
لیکن بیٹا، جیسے اب کوئی پرانا سپاہی ہو، تھوڑا سا جھنجھلا کر بولا:
“ابو! یہ سب آپ پہلے ہی ہزار بار بتا چکے ہیں!”
ٹرین کی سیٹی بجی، گاڑی روانگی کے قریب تھی۔
اچانک باپ نے بیٹے کے قریب جھک کر سرگوشی کی…
“یہ لے لو… اگر تمہیں کبھی ڈر لگے… یا طبیعت خراب ہو جائے، تو یہ تمہارے لیے ہے۔”
اور کچھ آہستگی سے بیٹے کی جیب میں ایک کاغذ رکھ دیا
ٹرین چلی…
لڑکا پہلی بار والدین کے بغیر تھا۔
منظر تیزی سے بدل رہے تھے… باہر کھیت، پہاڑ، آسمان… اندر اجنبی چہرے، شور، آوازیں۔
وہ باہر دیکھتا، کبھی سیٹ سے اٹھتا، کبھی دروازے کی طرف جاتا۔
لیکن دل کے اندر ایک انجانی سی بے چینی گھیرتی چلی جارہی تھی۔
ٹی ٹی آیا، پوچھا:
“اکیلا ہو؟ کہاں جا رہے ہو؟”
پھر ایک عورت نے اس پر ہمدردانہ نگاہ ڈالی، جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو لیکن لفظوں میں نہ ڈھال سکی۔
پھر ایک لمحہ آیا… جب اس کا دل گھبرنے لگا اور خوف اس کے دل و دماغ پر حاوی ہونے لگا۔
اسے لگا جیسے ہوا رُک گئی ہو، سانسیں پھنس گئی ہوں، اور وہ سیٹ سے گر پڑا۔
آنکھوں میں آنسو تھے… تنہائی کا پہلا زخم تھا۔
تبھی اُسے وہ سرگوشی یاد آئی… وہ الفاظ جو ابو نے کہے تھے…
“اگر ڈر لگے، تو یہ تمہارے لیے ہے۔”
کانپتے ہاتھ سے اس نے جیب میں ہاتھ ڈالا…
ایک چھوٹا سا کاغذ نکلا، اسے کھولا…
اس پر لکھا تھا:
“بیٹا، میں ٹرین کے آخری ڈبے میں ہوں۔”
بس…
اس ایک جملے نے، اس کی دنیا بدل دی۔
ڈرتی ہوئی روح، جیسے واپس اپنے جسم میں آ گئی۔
مسکراہٹ واپس لوٹ آئی۔ اعتماد پھر سے جاگا۔
—
یہی تو ہے زندگی…
ہم اپنے بچوں کو اُڑنے کے لیے پر دیتے ہیں،
انہیں خود مختاری کا سبق سکھاتے ہیں،
لیکن…
ہمیشہ، بہت چُپ چاپ، کسی “آخری ڈبے” میں بیٹھے رہتے ہیں —
تا کہ اگر کبھی وہ ڈر جائیں… تو جان لیں:
“ابو ابھی یہیں ہیں…”