ہم میں سے95 فیصد لوگ گزرے کل سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں‘
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ) میں اکثر لوگوں سے پوچھتا رہتا ھوں کہ
آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کہ کیا آپ اپنے والد سے بہتر زندگی نہیں گزار رہے؟
ہر شخص ہاں میں سر ہلاتا ہے!!
آپ کسی روز اپنے بچپن اور اپنے بچوں کے بچپن کا موازنہ کر لیں‘
آپ کو دونوں میں زمین آسمان کا فرق ملے گا‘
آپ کے گھر میں بچپن میں ایک پنکھا چلتا تھا اور پورا گھر وہیں سوتا تھا!
سارے گھر کے لئے ایک دو روپے کی برف خرید کر کولر میں پورا دن استعمال ہوتی تھی۔
لوگ دوسروں کے گھروں سے بھی برف مانگتے تھے!
ہمسایوں سے سالن مانگنا‘ شادی بیاہ کے لیے کپڑے اور جوتے ادھار لینا بھی عام تھا!
بچے پرانی کتابیں پڑھ کر امتحان دیتے تھے!
پورے محلے میں ایک فون ہوتا تھا اور سب لوگوں نے اپنے رشتے داروں کو وہی نمبر دے رکھا ہوتا تھا
ٹیلی ویژن بھی اجتماعی دعا کی طرح دیکھا جاتا تھا
بچوں کو نئے کپڑے اور نئے جوتے عید پر ملتے تھے۔
سائیکل خوش حالی کی علامت تھا!
اور موٹر سائیکل کے مالک کو امیر سمجھا جاتا تھا!
گاڑی صرف کرائے پر لی جاتی تھی۔
گھر کا ایک بچہ ٹی وی کا انٹینا ٹھیک کرنے کے لیے وقف ہوتا تھا!
پورے گھر میں ایک غسل خانہ اور ایک ہی ٹوائلٹ ہوتا تھا اور اس کا دروازہ ہر وقت باہر سے بجتا رہتا تھا
اور لوگ کپڑے کے ”پونے“ میں روٹی باندھ کر دفتر لے جاتے تھے!
بچوں کو بھی روٹی یا پراٹھے پر اچار کی پھانگ رکھ کر سکول بھجوا دیا جاتا تھا اور ”لنچ بریک“ کے دوران یہ لنچ پھڑکا کر نلکے کا پانی پی لیتے تھے۔
ہم سب نے یہاں سے زندگی شروع کی تھی!
اللہ کا کتنا کرم ہے اس نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا!
آپ یقین کریں قدرت ایک نسل بعد اتنی بڑی تبدیلی کا تحفہ بہت کم لوگوں کو دیتی ہے!
آج اگر یورپ کا کوئی بابا قبر سے اٹھ کر آ جائے تو اسے بجلی‘ ٹرین اور گاڑیوں کے علاوہ یورپ کے لائف سٹائل میں زیادہ فرق نہیں ملے گا
جب کہ ہم اگر صرف تیس سال پیچھے چلے جائیں تو ہم کسی اور ہی دنیا میں جا گریں گے۔
لیکن سوال یہ ہے اتنی ترقی‘ اتنی خوش حالی اور لائف سٹائل میں اتنی تبدیلی کے باوجود ہم لوگ خوش کیوں نہیں ہیں؟
میں جب بھی اپنے آپ سے یہ سوال کرتا ہوں تو میرے ذہن میں صرف ایک ہی جواب آتا ہے
ناشکری!
ہماری زندگی میں بنیادی طور پر شکر کی کمی ہے‘ ہم ناشکرے ہیں‘ آپ نے انگریزی کا لفظ ڈس سیٹس فیکشن سنا ہوگا‘ یہ صرف ایک لفظ نہیں ‘ یہ ایک خوف ناک نفسیاتی بیماری ہے
اور اس بیماری میں مبتلا لوگ تسکین کی نعمت سے محروم ہو جاتے ہیں۔
آپ نے اکثر دیکھا ہوگا لوگ پانی پیتے ہیں لیکن پانی پینے کے باوجود ان کی پیاس نہیں بجھتی
ہم میں سے کچھ لوگ ”آل دی ٹائم“ بھوکے بھی ہوتے ہیں‘ یہ کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتے ہیں لیکن ان کی بھوک ختم نہیں ہوتی!
اور ہم میں سے کچھ لوگ اربوں کھربوں روپے کمانے کے باوجود امیر نہیں ہوتے‘ کیوں؟
آپ نے کبھی سوچا!
کیوں کہ یہ لوگ بیمار ہوتے ہیں اور ان کی بیماری کا نام ”ڈس سیٹس فیکشن“ ہے۔
ہم من حیث القوم کسی نہ کسی حد تک ڈس سیٹس فیکشن کی بیماری کا شکار ہیں ۔
اور اس بیماری کی واحد وجہ وٹامن
شکر
کی کمی ہے۔
انسان جب شکر چھوڑ دیتا ہے تو پھر یہ ڈس سیٹس فیکشن میں مبتلا ہو جاتا ہے اور یہ بیماری پھر مریض کا وہی حشر کرتی ہے جو اس وقت ہم سب کا ہو رہا ہے۔
بلاشبہ ہم سب اپنے والدین اور اپنے بچپن سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں
چنانچہ ایک لمحے کے لیے اپنا بچپن یاد کریں‘ اپنے آج کے اثاثے اور زندگی کی نعمتیں شمار کریں اور پھر اللہ کا شکر ادا کریں
آپ کو نتائج حیران کر دیں گے‘ یقین کریں آپ کا شکر آپ کی زندگی سنوار دے گا ورنہ آپ کتنے ہی اچھے یا بڑے کیوں نہ ہوجائیں ‘آپ ایک ادھوری‘ غیر مطمئن اور تسکین سے محروم زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہو جائینگے ۔