Daily Roshni News

کہتے ہیں ناں کہ گھر وہی جنت بنتا ہے جہاں عورت عورت کو سمجھے

کہتے ہیں ناں کہ گھر وہی جنت بنتا ہے جہاں عورت عورت کو سمجھے

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )کہتے ہیں ناں کہ گھر وہی جنت بنتا ہے جہاں عورت عورت کو سمجھے، مگر افسوس! ہمارے معاشرے میں اکثر یہی عورت ہی دوسری عورت کی دشمنی میں ایسی دیمک بن جاتی ہے جو رشتوں کے آنگن کو اندر ہی اندر کھا جاتی ہے اور بیچ میں ایک ایسا کردار رہ جاتا ہے جسے نہ تو سسرال سمجھتا ہے نہ ہی میکہ بخشتا ہے. وہ کردار ہے “مرد” جو دن رات کی محنت، زمانے کے طعنے اور اپنوں کی توقعات کا بوجھ اٹھائے اپنے وجود کو چکی کے دو پاٹوں میں پیستا رہتا ہے۔

ساس اور بہو کی جنگ محض نسلوں کا ٹکراؤ نہیں، بلکہ وہ انا، ضد اور احساسِ برتری کا کھیل ہے جس میں دلیلیں نہیں، الزامات بولتے ہیں اور نند، جو کبھی پیار کا پیکر ہوا کرتی تھی، اب بھائی کی بیوی کو اپنے بھائی کے دل پر ناجائز قبضہ سمجھتی ہے۔ دوسری طرف بیوی جو خواب لے کر بیاہی جاتی ہے، جب دیکھتی ہے کہ اس کا شوہر ہر بات پر “امی نے کہا ہے”، “باجی ناراض ہو جائیں گی”، “بہن کی عزت بھی ضروری ہے” کی تسبیح پڑھتا ہے تو وہ بھی دل میں کینہ پال لیتی ہے۔

اب سچ پوچھیے تو مرد کو بیوی کی محبت بھی درکار ہے اور ماں کی دعا بھی۔ مگر جب بیوی اُس کی ماں کو “ظالم عورت” کہے اور ماں بیوی کو “چالاک بلا” پکارے تو مرد کے دل میں محبت، عزت اور وفاداری کا کون سا پیمانہ بچے گا؟ وہ بیچارہ تو محض ایک “کمبل” بن جاتا ہے جسے دونوں طرف سے کھینچا جاتا ہے اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو وہ خود کو “ناکارہ” محسوس کرنے لگتا ہے یا پھر “سنگدل” بننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

طلاق کے کیسز بھی آنکھیں کھولنے والے ہیں ان کے پیچھے چھپی کہانیاں روح جھنجھوڑنے والی ہوتی ہیں۔ اکثریت کیسز میں گھر ٹوٹنے کی جڑ اگر واقعی عورت کی عورت سے دشمنی ہے تو سوچنا پڑے گا کہ یہ معاشرتی تربیت کہاں غلط ہو رہی ہے؟ کیوں ماں بیٹے کو سکھاتی ہے کہ بیوی کو دباؤ اور بیوی کو سکھایا جاتا ہے کہ شوہر کو قابو میں رکھو؟

ادب کہتا ہے کہ رشتہ وہی خوبصورت ہوتا ہے جو نرم لہجے، سلیقے اور قربانی سے سنوارا جائے۔ مگر افسوس! ہمارے گھروں میں رشتے ضد، انا، اور سازشوں کے بیج سے اگائے جاتے ہیں۔ ایسے میں مرد اگر بیوی کا ساتھ دے تو “زن مرید” اور “کتا” کہلاتا ہے اور اگر اپنی ماں بہنوں کا ساتھ دے تو “ظالم”، “ظرف سے عاری” اور “غلامی میں جکڑا ہوا” قرار پاتا ہے۔ دونوں طرف سے طعنوں کی بارش، الزامات کا طوفان اور جذبات کی کھینچا تانی اسے تھکا دیتی ہے۔ وہ جو محافظ ہوتا ہے، خود عدم تحفظ کا شکار ہو جاتا ہے۔

یہ تحریر کسی کی طرف داری نہیں بلکہ اس حقیقت کا آئینہ ہے جو ہزاروں گھروں میں روز ٹوٹتی، بکھرتی اور چُبھتی ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ مرد کو ایک کٹھ پتلی نہیں بلکہ ایک حساس انسان سمجھیں جس کے دل میں بھی جذبات کی جھیل ہوتی ہے، جس کی آنکھوں میں بھی خواب ہوتے ہیں۔

لہٰذا اگر گھر بچانا ہے تو عورت کو عورت کی دشمنی ترک کرنا ہوگی اور مرد کو اپنی زبان اور قدم کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوگا۔ ورنہ یاد رکھئے:

“چکی کے دو پاٹوں میں اگر آٹا نہ ہو تو بھی وہ ایک دوسرے کو پیسنے سے باز نہیں آتے۔”

تحریر: چوہدری عامر عباس ایڈووکیٹ ہائیکورٹ لاہور.

………… قلم کٹہرا………….

Loading