جب سائنس نے مردہ جسم کو زندہ کرنے کی کوشش کی — اینڈریو یور اور گلاسگو کی خوفناک کہانی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )1818ء میں اسکاٹ لینڈ کے ماہر طب اینڈریو یور نے طب کی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ باب رقم کیا جس کا ذکر آج بھی خوف کے ساتھ ہوتا ہے۔ گلاسگو یونیورسٹی کے پروفیسر جیمز جیفری کے ساتھ مل کر انہوں نے مردہ انسان کے جسم کو بجلی کے ذریعے زندہ کرنے کی کوشش کی — یہ وہی زمانہ تھا جب گلوانزم (بجلی کے ذریعے جسم کو حرکت دینا) کا بڑا چرچا تھا اور اسی نظریے نے فرینکنسٹائن جیسی کہانیاں جنم دیں۔
انہوں نے جس لاش پر تجربہ کیا وہ میتھیو کلائیڈزڈیل نامی قاتل کی تھی جسے کچھ دن پہلے پھانسی دی گئی تھی۔ جیسے ہی اس کے مردہ جسم میں بجلی گزاری گئی تو پورا جسم ہچکولے کھانے لگا، اس کی ٹانگ اتنی زور سے ہلی کہ پاس کھڑا معاون زمین پر گرنے سے بال بال بچا، اور چہرے کے عضلات اس انداز میں بگڑنے لگے جیسے کبھی غصہ، کبھی خوف، کبھی ہولناک مسکراہٹ دکھا رہا ہو۔
اینڈریو یور نے اپنی رپورٹ میں لکھا:
> “ہر پٹھا جھٹکوں سے حرکت میں آ گیا، چہرے نے ایک ساتھ غصہ، خوف، مایوسی، اذیت اور ڈراؤنی مسکراہٹ کی ملی جلی حالت ظاہر کی۔”
یہ تجربہ ناکام تو رہا، لیکن انسانی جسم کو زندہ کرنے کے اس سیاہ خواب کی بنیاد بن گیا جس نے آنے والے وقتوں میں بھی کئی سائنسدانوں کو خوفناک تجربات پر اکسایا۔
سائنس اور موت کے بیچ فاصلہ ہمیشہ دھندلا رہا ہے۔انسانی تجسس اور بجلی کا امتزاج ہمیشہ خطرناک رہا ہے۔
اللّه ہمارا خاتمہ بالایمان فرمائے اور ہمیں جنّت الفردوس عطاء فرمائے آمین
انگلش سے اردو ترجمہ عاطف ابراہیم