*لوح قلم صفہ اول*
تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ لوح قلم صفہ اول ۔۔۔تحریر۔۔۔خواجہ شمس الدین عظیمی ؒ)حضور پُر نور قلندر بابا اولیا رحمتہ اللّٰه علیہ اپنی خوبصورت لاجواب منفرد اور اعلیٰ غیب سے پردہ اٹھانے والی کتاب لوح و قلم میں فرماتے ہیں
نوعِ انسان میں اپنی زندگی کی سرگرمیوں کے پیشِ نظر طبائع کی مختلف ساخت ہوتی ہیں مثلاً الف ب پ چ وغیرہ وغیرہ یہاں زیرِ بحث وہ ساخت ہے جو قدم قدم چلا کر عرفان کی منزل تک پہنچاتی ہے۔۔۔
🍁🍁🍁
طبائع سے مراد چھپائی کے ہیں۔ سخت زمین میں کسی بھی شے کے نقش کی چھپائی نا ممکن ہے۔ نقش کی چھپائی اس وقت ممکن ہے جب زمین خود کو نرم کر دیتی ہے تو آسانی سے اس پر شے کے نقوش ابھر آتے ہیں۔
جب بادل وسائل کی یعنی بارش کی صورت میں زمین پر برستے ہیں تو پانی زمین کی سطح کو نرم کر کے اس کے انر کی ڈائیوں میں داخل ہو کر ان نقوش کو ایکٹیو کر دیتا ہے۔ وہ نقوش زندگی کی صورت میں زمین پر ابھرتے ہیں۔
جب بچہ ماں کی آغوش میں سما جاتا ہے تو ماں کی عادت اس کی طبیعت یعنی اس کی طرزِفکر اس بچے کے ذہن میں نقش ہونے لگی ہے۔
اسی طرح جب ذہن آنے والی اطلاعات کی طرف متوجہ ہو کر ان کو قبول کرتا ہے تو وہ اطلاعات ذہن میں ان نقوش کو ایکٹیو کر دیتی ہیں جو نقوش شے کی صورت میں مظہر بنتے ہیں۔
انسانی ذہن جس صلاحیت کی طرف زیادہ متوجہ ہوتا ہے اس صلاحیت کی بار بار مشق کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس صلاحیت پر کمانڈ حاصل کر لیتا ہے۔ وہ صلاحیت اس کی طبیعت کا حصہ بن جاتی ہے۔ اسی صلاحیت کے کام سے وہ جانا پہچانا جاتا ہے۔۔
اللّٰه نے اپنے پروگرام زندگی کی بنیاد کو قائم رکھنے کے لئے انسان کے انر میں لاشمار صلاحتیں منتقل کی ہیں تاکہ زندگی رواں دواں رہے۔ مثلاً ڈاکٹر، انجینئر، مزدور، مستری، درزی، کارپینٹر، سائنس دان، فلاسفر، پائلٹ، ڈرائیور، ہدایات کار، موسیقار، گلوکار، مصنف وغیرہ وغیرہ اس طرح کی ہزاروں صلاحیتیں انسان میں پہلے سے موجود ہیں۔۔
حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللّٰه علیہ نوعِ انسانی کو خاص طور پر اس صلاحیت کی طرف متوجہ کر رہے ہیں جو صلاحیت قدم قدم میں چلا کر عرفان کی منزل تک پہنچاتی ہے یعنی وہ صلاحیت جس کا استعمال کرتے ہوئے زندگی اپنی حقیقت میں داخل ہو کر اپنے مقصد حیات کو سمجھ سکتی ہے
ہر صلاحیت ایک علم ہے اور علم زندگی کو تخلیق کرتا ہے۔ گویا انسان ہزاروں علوم کا لازوال خوبصورت منفرد اور اعلی گلدستہ ہے۔
انسان بنیادی طور پر ایک خدا ترس، خدا شناس ایک ولی اللّٰه، درویش عارف اور روحانی انسان آزاد طرزِفکر کا حامل بندہ بھی ہے۔
نوعِ انسانی کا ہر فرد آزاد طرزِفکر کی صلاحیت سے مالا مال ہے پر نوعِ انسانی نے ہمیشہ باقی تمام صلاحیتوں پر توجہ دی ہے۔ وہ صلاحیت جس کو طبیعت کا حصہ بنا کر اپنے تخلیق کے مقصد کو جان اور سمجھ سکتی ہے کہ اللّٰه نے اسے کس مقصد کے لئے تخلیق کیا ہے۔ اس مقصد سے نوعِ انسانی کوسوں دور ہو چکی ہے۔
دورِ جدید کے عظیم روحانی سائنس دان حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللّٰه علیہ نے نوعِ انسانی کو اس آزاد طرزِفکر کی طرف متوجہ کیا ہے۔ نوعِ انسانی کی بقا سکون، خوشی، محبت، اجتماعیت اسی آزاد طرزِفکر کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔۔ نوعِ انسانی کا ہر فرد وہ چاہیں کسی بھی فیلڈ میں ہو اس آزاد طرزِفکر کو حاصل کر کے اپنا تعلق اللّٰه سے قائم کر کے نیابت یعنی خلیفہ فی الارض کے عہدے پر فائز ہو کر شعوری سطح میں رہتے ہوئے اپنی ڈیوٹی ادا کر سکتا ہے