آج محمد رفیع کی 45 ویں برسی ہے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )محمد رفیع 24 دسمبر 1924 کو امرتسر کے کوٹلہ سلطان سنگھ گاؤں میں پیدا ہوئے۔ وہ بچپن سے ہی آوازوں کی نقالی میں کمال مہارت رکھتے تھے اور کبھی کبھی گلی میں بھیک مانگنے والے فقیروں کی آواز کو اس انداز میں نقل کرتے کہ سننے والا دنگ رہ جاتا۔ اسی عمر میں دوستوں کی جانب سے ملنے والی حوصلہ افزائی کے بعد انہوں نے گلوکار بننے اور اپنی قسمت کو آزمانے کا فیصلہ کیا۔
1935 میں محمد رفیع کا خاندان لاہور آگیا تو ان کے والد نے بھاٹی کے علاقے نور محلہ میں حجام کی دکان کھول لی۔ اسی دکان کے تھڑے پر بیٹھ کر وہ گنگنایا کرتے تھے۔ ان کے بہنوئی نے ان کی آواز سنی تو انہیں استاد چھوٹے غلام علی خان کا شاگرد بنوا دیا جن سے محمد رفیع نے گلوکاری کے بنیادی اسرار و رموز سیکھے۔.
پہلا گانا
رفیع نے لاہور ریڈیو پر پنجابی نغموں سے اپنے سفر کی ابتدا کی۔ پہلی پنجابی فلم ’گل بلوچ‘ میں انہوں نے اپنا گیت زینت بیگم کے ساتھ ریکارڈ کیا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز کندن لال سہگل کا پروگرام تھا۔ وہ اپنے وقت کے مشہور گلوکار تھے اور انہیں سننے کے لیے سیکڑوں کا مجمع تھا، مگر بجلی فیل ہونے کی وجہ سے سہگل نےگانے سے انکار کر دیا۔ اسی وقت رفیع کے بھائی نے پروگرام کے منتظمین سے کہا کہ ان کا بھائی بھی ایک گلوکار ہے اور اسے موقع دیا جائے۔
مجمعے کی ناراضی کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے رفیع کو گانے کا موقع دیا۔ 13 سال کی عمر میں انہوں نے اِسٹیج پر گیت گایا۔ اسی پروگرام میں موسیقار شیام سندر موجود تھے۔ انہوں نے ایک جوہری کی طرح رفیع کو پرکھ لیا اور انہیں بمبئی آنے کی دعوت دی۔ بس یہیں سے رفیع کا گلوکاری کا یادگار سفر شروع ہوا۔
تقسیم ہند سے قبل انہوں نے کئی فلموں میں نغمے گائے۔ فلم جگنو میں ملکہ ترنم نورجہاں کے ساتھ ان کا گایا یہ گیت
’یہاں بدلہ وفا کا بے وفائی کے سوا کیا ہے‘
ان کے ہزا رہا یادگار نغموں میں سے ایک ہے۔
نوشاد سے ملاقات
رفیع کی زندگی میں سب سے بڑا موڑ اس وقت آیا جب موسیقار اعظم نوشاد نے انہیں گانے کا موقع دیا۔ اس وقت نوشاد علی اور طلعت محمود کی جوڑی بہت کامیاب تھی نوشاد کا ہر گیت طلعت گاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز نوشاد نے طلعت کو گانے سے قبل سگریٹ پیتے دیکھ لیا۔ اصولوں کے پکے نوشاد بہت برہم ہوئے اور انہوں نے طلعت کی بجائے رفیع کو چن لیا۔ رفیع نے زندگی میں کبھی سگریٹ یا شراب کو ہاتھ نہیں لگایا تھا۔
نوشاد کے ساتھ رفیع کی جوڑی بہت کامیاب رہی۔ بیجوباورا کے سارے نغمے ہٹ ہوئے۔
من تڑپت ہری درشن کو آج،
جیسا کلاسیکی گیت ہو یا
چاہے مجھے کوئی جنگلی کہے
کا چنچل نغمہ رفیع کو ہر طرح کے گیت گانے میں مہارت حاصل تھی۔ انہوں نے وہ نغمے بھی گائے جنہیں اس وقت کے دوسرے گلوکاروں نے گانے سے انکار کر دیا تھا۔ کشور کمار نے ’ہاتھی میرے ساتھی کا گیت
نفرت کی دنیا کو چھوڑ کر‘
گانے سے منع کر دیا تھا کیونکہ اس میں آواز کی لے کافی اونچی تھی لیکن رفیع نے یہ گیت گایا اور بہت مقبول ہوا۔ انہوں نے اردو ، ہندی ، مراٹھی، گجراتی، بنگالی بھوجپوری تمل کے علاوہ کئی زبانوں میں گیت گائے۔ رفیع کی خاصیت تھی کہ وہ جس فنکار کے لیے گاتے اسی کی آواز اور اسی کے انداز کو اپناتے۔
فلم پیاسا میں جانی واکر کے لیے انہوں نے ’تیل مالش’ کا جو گیت گایا اسے سن کر لگتا ہے کہ سامنے جانی واکر ہی گا رہے ہیں اور اس کا اعتراف خود جانی واکر نے بھی کیا تھا۔
رفیع بہت سیدھے اور صاف دل انسان تھے۔ کئی مرتبہ انہوں نے بغیر ایک پیسہ لیے گیت گایا۔ ایک بڑے موسیقار نے رفیع کی موت کے بعد اعتراف کیا کہ ان کے پاس رفیع کو دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ گیت ختم ہونے کے بعد انہوں نے رفیع صاحب سے نظریں نہیں ملائیں اور دنیا کو دکھانے کے لیے ایک خالی لفافہ پکڑا دیا۔ رفیع نے اسے لے لیا لیکن بعد میں ملاقات کے بعد کبھی اس کا تذکرہ بھی نہیں کیا جب بھی ملے مسکرا کر ملے۔
گلوکار محمد رفیع دنیائے موسیقی کے ان نامور اور شہرت یافتہ گلوکار رہے کہ جنھوں نے اپنے فنی کیرئیر میں 4516 گیت گا کر بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔ انہوں نے انمول گھڑی، میلہ، انداز، دیدار، بیجو باورہ، دوبیگھا زمین، دیوداس، چوری چوری، پیاسا، کاغذ کے پھول، تیرے گھر کے سامنے، گائیڈ، ارادھنا، ابھیمان، نیا دور، کشمیر کی کلی، مغل اعظم، جنگلی، پروفیسر، چائنا ٹاؤن، تاج محل، میرے محبوب، سنگم، دوستی، وقت، خاندان، جانور، تیسری منزل، میرا سایہ، دل دیا درد لیا، کھلونا، دوستانہ، پاکیزہ، کاروان، لیلیٰ مجنوں سمیت ایک ہزار کے قریب فلموں میں گیت گائے.
محمد رفیع کے یادگار گیت
💐
’کیا ہوا تیرا وعدہ‘
’بہارو پھول برساؤ‘
’لکھے جو خط تجھے‘
’چُرا لیا ہے تم نے جو دل کو‘
’تیری پیاری پیاری صورت کو کسی کی نظر نہ لگے‘
’دل کے جھرکوں پے تجھ کو بٹھا کے ‘، ’چاہے مجھے کوئی جنگلی کہے‘ ’چودھویں کا چاند ہو‘
’بابل کی دعائیں لیتی جا‘
’تعریف کروں کیا اس کی‘
’چاہوں گا میں تمھیں سانجھ سویرے‘
’یہ دنیا یہ محفل میرے کام کی نہیں‘
’تیری آنکھوں کے سوا‘
’چھپ گئے سارے نظارے‘
’پردہ ہے پردہ ‘
’او میری محبوبہ‘
’یہ ریشمی زلفیں‘
’آنکھوں ہی آنکھوں میں‘
’اٹھرا برس کی تو‘
’یہ میرا پریم پتر پڑھ کر‘
’تجھے جیون کی ڈور سے ‘
’یونہی تم مجھ سے بات کرتی ہو‘ ’مجھے تیری محبت کا سہارا‘
’بھری دنیا میں آخر دل کو سمجھانے ’آدمی مسافر ہے‘
’میرے دشمن تو میری دوستی کو ترسے‘
’رم جھم کے گیت ساون گائے‘
’یہ دل تم بن کہیں لگتا نہیں‘
’آجا تجھ کو پکارے میرے گیت‘ ’سہانی رات ڈھل چکی‘
’زندہ باد زندہ باد اے محبت‘
’تمہاری نظر کیوں خفا ہو گئی‘
’تیری دنیا سے دور‘
’جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘ ’میرے متوا میرے میت رے‘
’میرے پیار کی آواز پے چلی آنا‘ ’وعدہ کرلے ساجنا‘
’یہ چاند سا روشن چہرہ‘
’اکیلے اکیلے کہاں جا رہے ہو‘
’ایسا موقع پھر کہاں ملے گا‘
’آنے سے اس کے آئے بہار‘
’خوش رہے تو سدا‘
’بار بار دیکھو‘
’باغوں میں بہار ہے‘
’ہوئے ہم عشق میں برباد ہیں برباد رہیں گے‘
’میرے دوست قصہ یہ ‘
’سلامت رہے دوستانہ‘
محمد رفیع 31 جولائی 1980 کو بمبئی میں حرکت قلب بند ہونے سے صرف 56 برس کی عمر میں انتقال کر گئے.
… یہ آٹو گرافڈ فوٹو محمد رفیع صاحب نے مجھے، میرے خط کے جواب میں بھیجی تھی، تب میں شاید فرسٹ ایر میں تھا.
بشکریہ اسلم ملک