Daily Roshni News

۔لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف

لندن کی فضاؤں سے

ن م راشد اورلندن

تحریر۔۔۔فیضان عارف

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔لندن کی فضاؤں سے۔۔۔تحریر۔۔۔فیضان عارف)میں نے ایک ملاقات میں ساقی فاروقی سے پوچھا کہ آپ ن م راشد کو فیض احمد فیض سے بڑا شاعر کیوں قرار دیتے ہیں؟ اور اُن کی تعریف و توصیف میں کوئی کسرنہیں اٹھا رکھتے۔ ساقی صاحب مسکرائے اور کہنے لگے فیض احمد فیض نے خود یہ اعتراف کیا تھا کہ راشد کا تخلیقی دماغ مجھ سے بڑا ہے۔ اردوادب میں تین نام ایسے ہیں جن کے بارے میں ہمارے عہد کے بہت معتبر اور نامور اہل قلم نے ایسی آرا کا اظہار کیا کہ مجھ جیسے طالب علموں نے اپنی پہلی فرصت میں اِن ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات کو پڑھا اور مایوس ہوئے۔ محمد خالد اختر کی کتاب ”چاکیواڑہ میں وصال“ کی احمدندیم قاسمی اور فیض صاحب نے بہت تعریف کی۔ ن م راشداور میرا جی کی شاعری کے بارے میں ساقی فاروقی اور کئی نامور لوگوں نے جو تو صیفی مضامین لکھے یا مجید امجد کو جس طرح اردو ادب کا سب سے معتبر حوالہ قرار دینے کی کوشش کی گئی اس پر مجھ سمیت ان گنت اہل قلم کوحیرانی ہوتی ہے۔ خاص طور م ن راشد کی نظموں کی جس طرح پزیرائی کی جاتی اور انہیں جدید اردو نظم کا بانی سمجھا جاتا ہے میں اس سے قطعاً اتفاق نہیں کرتا۔اگر کسی کو سلیم کوثر کی نظمیں، ن م راشد کی نظموں سے زیادہ اچھی لگتی ہیں یا کسی کو
اسلم کولسری
قمر رضا شہزاد اورثنااللہ ظہیر کی شاعری مجید امجد کی نظموں اور غزلوں سے زیادہ اپیل کرتی ہے
یا کسی کو ادا جعفری، فہمیدہ ریاض یا کشور ناہید کی شاعری متاثر نہیں کرتی اور اسے پروین شاکر یا کومل جوئیہ کے شعری موضوعات اور پیرایہ اظہار پسند آتا ہے۔

تو اس میں اپنے اپنے شعری معیار، ابلاغ اور ذاتی پسند نا پسند کا معاملہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے ساقی فاروقی صاحب ن م راشد کے بہت بڑے مداح اور خیر خواہ تھے۔ انہوں نے لندن میں راشد صاحب کے ساتھ بہت وقت گزارا بلکہ ساقی فا روقی اردو کے واحد ادیب اور شاعر تھے جن کی ن م را شد سے قربت رہی وگر نہ راجہ نذر محمد راشد کسی کوخاطر میں نہیں لاتے تھے، وہ ڈسپلن اور اصولوں کے بڑے پابند تھے۔
ساقی فاروقی نے اپنی کتاب ہدایت نامہ شاعر میں ”حسن کوزہ گر“ کے عنوان سے جو مضمون لکھا ہے اس میں فیض اورراشد کی دو ملاقاتوں کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ ایک بار ن م را شد نیویارک سے پاکستان گئے تو ریڈیو پاکستان لاہور میں انہیں ایک ریکارڈنگ کے لئے مدعو کیا گیا جہاں اُن کی فیض احمد فیض سے اچانک ملاقات ہوئی۔ فیض صاحب انہیں گرمجوشی سے ملے اور اپنے گھر کھانے کی دعوت دی۔تاریخ اور وقت طے کر لیا گیا لیکن جب راشد صاحب اس طے شدہ تاریخ اور وقت پرفیض صاحب کے گھر پہنچے تو دو تین بار گھنٹی بجانے پر فیض صاحب نمودار ہوئے۔رات کاوقت تھافیض صاحب کو یاد تک نہیں تھا کہ انہوں نے راشد صاحب کو اپنے گھر کھانے کی دعوت دے رکھی ہے۔دروازہ کھولتے ہی کہنے لگے”میں سمجھا تھا کہ تو مصروف آدمی ہے یار، نہیں آئے گا“۔ ن م راشد نے کہا بھئی تم نے کھانے پربلایا اور میں نے وعدہ کر لیا، آتا کیسے نہیں، یہ منطق سمجھ میں نہیں آئی۔ خیرن م راشد کے کہنے کے مطابق فیضؔ نے ڈھونڈ ڈھانڈ کربستر کے نیچے سے وہسکی کی ایک شیشی (جو ہوائی جہاز میں مسافروں کو دی جاتی ہے) نکالی اور یہ کہتے ہوئے پیش کی کہ آدھی توپی، آدھی میں پیوں گا، راشد صاحب شیشی کا حجم دیکھ کر اس قدر شرمندہ ہوئے کہ پینے سے انکار کردیا۔فیض صاحب نے غٹاغٹ وہسکی ختم کی تو راشد صاحب کچھ دیر وہاں بیٹھنے کے بعدکوئی بہانہ کر کے اٹھ کر چلے گئے۔ کئی سال بعد ن م راشد لاہور گئے تو فیض صاحب نے انہیں پھر سے کھانے پر بلایا، وہ پہنچے تو فیض صاحب منتظر ملے، مصافحے کے بعدفیض صاحب نے کہا کہ یارفلا نے چودھری صاحب کی طرف چلنا ہے،اچھی شراب ملے گی۔راشد صاحب نے کہاکہ میں انہیں نہیں جانتا اورنہ انہوں نے مجھے بلایا ہے۔فیض صاحب کہنے لگے، ارے فکر نہ کریار تجھے وہ خوب جانتے ہیں، غرض بادل نخواستہ یہ ساتھ ہولئے، شراب کے کئی دور چلے پھر فیض صاحب کہنے لگے یارفلا نے صاحب کی طرف چلتے ہیں، راشد صاحب عجیب مشکل میں تھے، کرتے تو کیا کرتے،پھر ساتھ ہولئے پھر شرابیں چلیں،فیض صاحب کہنے لگے یارفلا نے شیخ صاحب کے یہاں چل کر کھانا کھاتے ہیں، ان کے یہاں کباب بڑے لذیز ملتے ہیں۔ اب راشد صاحب سے نہ رہا گیا انہوں نے کہا فیض! دعوت تم نے مجھے اپنے ہاں دی تھی اور ہویہ رہا ہے کہ تم مجھے لوگوں کے یہاں گھسیٹتے پھر رہے ہو اس طرح کی جارحانہ مفت نوشی اور مفت خوری میرے مسلک کے خلاف ہے اس لئے مجھے اجازت دو۔
ن م راشد کو لندن بہت پسند تھا انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ اس شہر میں گزارا۔ اُن کا آبائی تعلق گوجر انوالہ کے ایک گاؤں علی پور چٹھہ (کوٹ بھاگا، اکال گڑھ) سے تھا جہاں وہ یکم اگست 1910 کو ایک پڑھے لکھے خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ ن م راشد متحدہ ہندوستان کے مختلف شہروں میں زیرتعلیم رہے اور کئی محکموں میں ملازمت کی۔ اقوام متحدہ کی ملازمت کے دوران وہ نیو یارک، تہران، جکارتہ اور کراچی میں بھی متعین ر ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے لندن کو اپنا مسکن بنایا اوریہاں خود سے 20 برس چھوٹی ایک یورپی لڑکی سے دوسری شادی کی جس کی وجہ سے 1975 میں ن م راشد کے انتقال کے بعد ان کے جسدخاکی کو سپرد خاک کئے جانے کی بجائے جلا دیا گیا۔ن م راشد اُردو کے واحد مسلمان شاعر تھے جنہیں نذر آتش کیا گیا۔ ساقی فاروقی نے اپنے مضمون”حسن کوزہ گر“ میں اس سانحے کی تفصیلات کو بھی تحریر کیا ہے۔ راشد صاحب کے انتقال کے بعد جب ان کی بیوی شیلا انجلینی سے ساقی فاروقی کی بات ہوئی تو انہوں نے پوچھا کہ راشد صاحب کو کب کہاں دفن کیا جائے گا؟ تو وہ کہنے لگیں کہ میرے شوہر کی خواہش تھی کہ ا نہیں نذر آتش کیا جائے لیکن حتمی فیصلہ ان کے بیٹے شہریارسے مشورے کے بعد ہو گا۔ بہت سے لوگوں نے ساقی صاحب کوفون کر کے راشد صاحب کی تدفین کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے سب کویہی جواب دیا کہ میں راشد صاحب کا ادنیٰ دوست ہوں ان کی میت کی وراثت پرمیرا کوئی حق نہیں، اس کا فیصلہ ان کی بیوی اور بیٹے نے کرنا ہے۔ ساقی صاحب نے یہ وضاحت بھی کی کہ جب راشد صاحب کے سسر مسٹر انجلینی کا انتقال ہوا تو شیلا نے بتایا کہ راشدصاحب بھی میت کے ساتھ لندن کریمیٹوریم (Cremitorium، جہاں مردوں کو جلایا جاتا ہے)گئے تھے اورجب اُن کے سسر کی لاش تہہ خانے کی بھٹی میں جلنے کے لئے نیچے اتر گئی اور سب لوگ ہال سے باہر نکل کرلان میں چلے گئے تو یکا یک پتہ چلا کہ راشدصاحب لاپتہ ہیں۔ کوئی دس منٹ بعد آئے، معلوم ہوا کہ تختہ سرکنے اورلاش کے یکایک غائب ہونے کا کچھ ایسا اثر اُن پر ہوا کہ سراغ لگانے کے لئے عمارت کے عقب میں چلے گئے اور تہہ خانے تک پہنچ کر اپنی آنکھوں سے لاش کو جلتے اور چند منٹ میں راکھ میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا، وہ راستے بھراپنے اس تجربے کا ذکر کر کے کہتے رہے کہ میں بھی مرنے کے بعدایسے ہی کریمیٹ ہونا چاہتا ہوں۔اس واقعے کے بعد بھی انہوں نے اپنے بیٹے اور بیوی سے مرنے کو بعد کریمیٹ ہونے (یعنی ان کی لاش کو جلانے) کی خواہش کا اظہار کیا۔ساقی صاحب لکھتے ہیں کہ لندن کے کرمیٹوریم میں جب ن م راشد کی میت کو لے جایا گیا پس منظر میں آرگن پر ایک سوگوار دھن بج رہی تھی، تھوڑی دیربعدمیت کے چاروں طرف پردہ کھینچ کرتابوت کو تہہ خانے میں پہنچا دیا گیا۔ راشد صاحب آگ کے شعلوں میں نہانے کے لئے چلے گئے جہاں بجلی کی بھٹی نے چند منٹ میں جسد خاکی کو راکھ میں تبدیل کر دیا۔ عبد اللہ حسین سمیت ہم چار پاکستانی، دوہندوستانی اور پانچ یورپی خاموشی سے اٹھ کربا ہر چلے آئے، دروازہ بند ہو گیا، باہر لان میں چند سرخ گلابوں کا ایک معمولی سا گلدستہ اپنی تنہائی پر شرمندہ تھا پاس ہی ایک کارڈ پر لکھا ہوا تھا”بہت ہی پیارے نذر راشد کے لئے، اس کی چہیتی بیوی کی طرف سے“۔
بقول ساقی فاروقی ایک بار ن م راشد نے اُن سے کہا تھا کہ میں مرنے ورنے کی فکر نہیں کرتا مجھے اس کی پرواہ بھی نہیں کہ میری لاش ہسپتال میں چیر پھاڑ کے کام آئے گی یا جلا دی جائے گی یا غرق دریا ہوجائے گی۔ ایک بات میں جانتا ہوں، میں چلتے پھرتے مرنا چاہتا ہوں، میں بستر میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنا نہیں چاہتا اور اگر کبھی ایسا ہوا کہ میں ہلنے جلنے سے معذور ہو گیا تو گولیاں کھا کر اپنی زندگی ختم کرلوں گا۔ ان دنوں برطانیہ میں تین سو سے زیادہ کریمیٹوریم (آتش خانے) ہیں جہاں ہر سال تقریباً 5 لاکھ میتوں کو ان کی وصیت کے مطابق نذر آتش کیا جاتا ہے۔ان آتش خانوں میں ایک ہزاروولٹیج کی برقی شعائیں چند سیکنڈ میں انسانی لاش کو مٹھی بھرراکھ میں تبدیل کردیتی ہیں۔
٭٭٭

Loading