” تھوک کا سودا”
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )ایک عرب بیوہ نے شادی کی عمر کو پہنچی ہوئی اپنی حسین و جمیل بیٹی کے لیے مبلغ پانچ لاکھ ریال حق مہر کا مطالبہ کر رکھا تھا۔
لڑکی سے شادی کے کئی خواہشمند اتنا حق مہر سن کر ویسے ہی دستبردار ہو چکے تھے۔
اپنی ضد کا پکا ایک لڑکا بڑی مشکل سے تین لاکھ ریال اکٹھے کر پایا۔
پیسے لے کر مزید کی مدد مانگنے کے لیے سیدھا اپنے باپ کے پاس پہنچا اور کہا: ابا جی، میرا کچھ کر لو، میں اس لڑکی پہ فدا ہو گیا ہوں، مگر اس کی ماں ہے کہ پانچ لاکھ ریال حق مہر سے ایک فلس کم پر بھی بات کرنے کو تیار نہیں۔ اب آپ ہی کچھ کیجیے۔
باپ نے بیٹے کی سنجیدگی کو دیکھا اور کہا: ٹھیک ہے پُتر، چل لا پیسے۔ کچھ کرتے ہیں تیرا بھی۔
دونوں باپ بیٹا پیسے لیکر بیوہ کے گھر پہنچے۔ سلام و دعا کے بعد باپ نے خاتون سے کہا: میں آپ سے بات کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں۔ میری آپ سے ایک گزارش ہے کہ جب تک میں اپنی بات مکمل نہ کر لوں آپ میری بات نہ کاٹیں۔
خاتون نے کہا: جی بسم اللّٰہ ، کہیے۔
لڑکے کے باپ نے کہا: میرا بیٹا آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہے اور یہ ایک لاکھ ریال نقد حق مہر ساتھ لایا ہے۔
خاتون نے گڑبڑاتے ہوئے کہا؛ مگر مجھے اپنی بیٹی کے حق مہر میں پانچ لاکھ ریال سے ایک فلس کم بھی قبول نہیں ہے۔
لڑکے کے باپ نے کہا: محترمہ آپ سے گزارش کی تھی کہ آپ مجھے بات پوری کرنے دیجیے گا۔
خاتون نے معذرت کرتے ہوئے کہا: جی آپ پوری کیجیے اپنی بات۔
لڑکے کے باپ نے کہا: آپ بذات خود ایک انتہائی خوبصورت اور جوان جہان عورت ہیں۔ میں آپ کو بھی ایک لاکھ ریال حق مہر ادا کرنا چاہتا ہوں۔ آپ میرے حق شرعی میں آ جائیے۔
خاتون کی خوشی سے باچھیں کھل کر کانوں کو جا لگیں۔ بمشکل اپنے جذبات کو دباتے ہوئے کہا: اللّٰہ آپ کا آنا قبول کرے۔ مجھے آپ کی دونوں شرطیں قبول ہیں۔
باپ بیٹا خوشی خوشی باہر نکلے تو ہمسائیوں نے پوچھا: ایسا کیسے ہوگیا؟ یہ تو ناممکن نظر آتا تھا۔
لڑکے کے باپ نے کہا: مال تھوک میں خریدتے ہوئے اور پرچون میں خریدتے ہوئے آخر ریٹ میں کچھ تو فرق پڑتا ہے ناں۔
لڑکے نے ہلکا سا گلا صاف کرتے ہوئے باپ سے کہا: ابا جی، وہ ایک لاکھ ریال جو بچ گئے ہیں، پھر وہ تو مجھے واپس دے دیجیے۔
باپ نے کہا:
ناں پُتر اوئے، ابھی ایک بڑا اور اہم مرحلہ تو باقی پڑا ہوا ہے۔ یہ ایک لاکھ ریال جا کر تیری ماں کو دینا پڑے گا تاکہ وہ بھی تو راضی ہو جائے ۔