ڈیجیٹل ڈیمز کا دور: جہاں بجلی نہیں، ذہانت پیدا ہوتی ہے
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )چین کا “تھری گارجز ڈیم”، جسے چین اپنی طاقت کا نشان سمجھتا ہے، یہ واقعی انجینئرنگ کا معجزہ ہے اس ڈیم کے اندر تقریباً 10 ٹریلین گیلن پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے، اور بجلی پیدا کرنے کی طاقت کے لحاظ سے یہ دنیا کا سب سے بڑا پن بجلی منصوبہ ہے، جو 22,500 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لاکھوں ایکڑ زرعی زمین کی آبیاری کرتا ہے، اور صنعتوں کو زندگی بخشتا ہے۔ حقیقت میں، پانی کے انتظام کے حوالے سے یہ ایک ایسی کامیابی ہے جس کی مثال پوری دنیا بشمول امریکہ کے پاس بھی نہیں ہے۔
مگر کیا ہو اگر ہم اس طاقت کا موازنہ ڈیجیٹل دنیا میں کریں؟ جہاں بہتے ہوئے پانی کی جگہ بے پناہ “ڈیٹا” موجود ہے، اور ڈیم کی جگہ “ڈیٹا سینٹرز” کی تعمیر ہوتی ہے اس میدان جنگ میں، مقابلہ بلکل الٹ جاتا ہے۔ یہاں امریکہ کو غیر متنازعہ برتری حاصل ہے۔ Amazon، Google، Microsoft، اور Meta جیسے ادارے ایسے “ڈیجیٹل ڈیم” چلا رہے ہیں جو دنیا بھر کے ڈیٹا کو نہ صرف محفوظ رکھتے ہیں، بلکہ اسے مستقبل کی سب سے قیمتی شے، یعنی “آرٹیفیشل انٹیلیجنس” کی تربیت کیلئے استعمال بھی کر رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس طرح کسی حقیقی ڈیم کی تعمیر کیلئے ایک ایسی جگہ کا انتخاب کرنا ضروری ہے جو پہاڑوں کے وسط میں ہو، زلزلہ برداشت کر سکے، اور جس میں زیادہ سے زیادہ پانی اسٹور کرنے کی گنجائش بھی موجود ہو۔ اس کے ڈھانچے میں لاکھوں ٹن کنکریٹ، فولاد اور پھر اس کی مسلسل دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے اور آخر میں ایک پیچیدہ حفاظتی نظام استعمال ہوتا ہے، کیونکہ اگر درست طریقہ کار نہ اپنایا جائے تو پانی خطرناک ہو کر سیلابی صورتحال میں بدل جاتا ہے۔
یہی اصول “ڈیجیٹل ڈیم” کی تعمیر پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ڈیٹا سینٹر کی تعمیر میں بھی سب سے پہلے موزوں ترین اور ٹھندی جگہ یا علاقے کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ چونکہ یہ 24/7 کام کرتے ہیں تو مستقل بجلی کی ضرورت ہوتی ہے مشینیں اور ایکیوپ منٹز ٹھنڈا رکھنے کے لیے خاص کولنگ سسٹم لگائے جاتے ہیں، یہاں وافر مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور پھر آخر میں اس کیلئے انتہائی محفوظ سائبر سیکورٹی سسٹم کا انتظام کیا جاتا ہے کیونکہ اگر درست طریقہ کار نہ اپنایا جائے تو ڈیٹا کے ہیک یا انفارمیشن لیک اور ذاتی معلومات کے غلط استعمال ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر ڈیٹا سینٹر دراصل ایک ڈیجیٹل ڈیم کی طرح ہے جو معلومات کے بے پناہ بہاؤ کو محفوظ کرتا ہے۔ جس طرح ایک حقیقی ڈیم میں موجود پانی سے بجلی پیدا ہوتی ہے اور کھیتوں کو سیراب کیا جاتا ہے، اسی طرح ڈیٹا سینٹرز میں جمع شدہ ڈیٹا کو منظم کر کے انفارمیشن میں بدلا جاتا ہے، اور پھر اسی انفارمیشن کی مدد سے مصنوعی ذہانت (AI) کی تربیت اور دیگر جدید ٹیکنالوجیز کو ترقی دی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر مستقبل کی تمام ٹیکنالوجیز کھڑی ہوں گی، اور جو ہماری روزمرہ کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں لا رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
چین کے پاس دنیا کی سب سے بڑی آبادی ہے اور انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد بھی سب سے زیادہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہاں ڈیٹا کا ایک سمندر ہر لمحے بہتا ہے۔ مگر حقیقی مسئلہ اس بے پناہ ڈیٹا کو منظم اور محفوظ کرنے والے “ڈیجیٹل ڈیمز” یعنی ہائی پرفارمنس ڈیٹا سینٹرز کی کمی ہے۔ چین کے موجودہ ڈیٹا سینٹرز یا تو پرانے ہیں، یا تکنیکی اعتبار سے امریکہ سے بہت پیچھے ہیں۔
ان ڈیٹا سینٹرز کی تعمیر کے لیے سب سے اہم تعمیراتی سامان “جدید ترین چپس اور سپر کمپیوٹرز” ہیں۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر یہ ڈیٹا سینٹرز کھڑے ہوتے ہیں۔ امریکہ میں موجود Nvidia اور Microsoft ایسی کمپنیاں ہیں جن کے پاس یہ اہم تعمیراتی سامان وافر مقدار میں موجود ہے جبکہ چین کو انہی اہم حصوں کی کمی کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے، اگرچہ چین کے پاس ڈیٹا کی شکل میں بہت زیادہ “پانی” موجود ہے، لیکن اس کے پاس وہ مضبوط “ڈیجیٹل ڈیم” موجود نہیں جو اس پانی کو محفوظ کر سکے اور اسے مستقبل کی سب سے قیمتی شے، یعنی مصنوعی ذہانت (AI) کی تربیت کے لیے استعمال کر سکے۔ یہ وہ اہم رکاوٹ ہے جو چین کو ڈیجیٹل دنیا کی قیادت سنبھالنے سے روک رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی وجہ ہے کہ ابھی چند ماہ پہلے جب چینی کمپنی DeepSeek نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں اچانک پیش رفت کی، تو عالمی منڈیوں میں ہلچل مچ گئی، اور Nvidia جیسے امریکی ٹیک جائنٹ کے شیئرز عارضی طور پر گِر گئے۔ مگر یہ صرف ایک عارضی جھٹکا تھا۔ وقت نے ثابت کیا کہ صرف ڈیٹا ہونا کافی نہیں، اصل طاقت اس ڈیٹا کو قابو میں لانے اور اسے استعمال میں لانے کے بنیادی ڈھانچے میں ہے۔ آج Nvidia نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑی ہے بلکہ دنیا کی پہلی 4,000 ارب ڈالر کی ٹیک کمپنی بن چکی ہے، اور Microsoft بھی اس ڈیجیٹل انقلاب کی اگلی صف میں شامل ہیں امریکی پابندیوں کی وجہ سے چین کو Nvidia کے طاقتور H100 چپس نہیں مل پاتے جو AI ماڈلز کو تربیت دینے کے لیے ناگزیر ہیں۔ یہ چپس کسی ڈیم میں لگی ہائیڈرو ٹربائنز کی طرح ہیں جو پانی (ڈیٹا) کو بجلی (ذہانت) میں بدلتے ہیں۔ نتیجتاً، چین کے پاس وافر مقدار میں ڈیٹا تو موجود ہے لیکن اسے پروسیس کرنے اور اس سے ذہانت کشید کرنے کی صلاحیت میں کمی ہے۔ اسی وجہ سے امریکہ، جس کے پاس ڈیٹا سینٹرز اور جدید ترین ٹیکنالوجی دونوں موجود ہیں، مصنوعی ذہانت کے میدان میں واضح برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اصل کہانی یہ ہے کہ دنیا کی باگ ڈور اب ان طاقتور ٹیک کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے جن کے پاس یہ “ڈیجیٹل ڈیمز” موجود ہیں جو نہ صرف ہماری معلومات بلکہ ہمارے خیالات، ترجیحات اور روزمرہ کے فیصلوں تک کو کنٹرول کرتی ہیں۔ گوگل، چیٹ جی پی ٹی، انسٹاگرام، یوٹیوب وغیرہ یہ محض ایپس نہیں ہیں بلکہ ان میں بہتے ہوئے ڈیٹا کا کنٹرول، بالکل ویسے ہی چند ہاتھوں میں ہے جیسے کسی حقیقی ڈیم میں پانی کے بہاؤ اور بجلی کی ترسیل کا مکمل اختیار مخصوص نظام کے پاس ہوتا ہے۔ جب چاہا پانی روکا، جب چاہا چھوڑ دیا اور جب چاہا بجلی بند کر دی یعنی لوڈشیڈنگ کر دی گئی۔ اسی طرح، جب چاہیں یہ کمپنیاں کسی ملک کی ڈیجیٹل سانسیں بند کر سکتی ہیں کسی ٹیکنالوجی کو عالمی منظرنامے سے غائب کر دے۔ کسی پلیٹ فارم کو غیر فعال، یا کسی سروس کو معطل کر سکتی ہیں۔ اگر کل صبح آپ کا موبائل کہے: “گوگل دستیاب نہیں” یا “چیٹ جی پی ٹی سروس بند ہے” تو یہ محض تکنیکی خرابی نہیں، بلکہ ایک عالمی ڈیجیٹل طاقت کا فیصلہ بھی ہو سکتا ہے۔ مستقبل کی جنگیں اب بندوقوں یا میزائلوں سے نہیں، بلکہ ڈیجیٹل ڈیمز کے والو گھما کر لڑی اور جیتی جائیں گی اور یہی وہ حقیقت ہے جسے سمجھنا، تسلیم کرنا اور اس کے لیے تیار ہونا، ہماری بقا کے لیے ناگزیر ہوتا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ ختم شد