Daily Roshni News

حماس کس خفیہ نظام کے تحت غزہ میں سرکاری ملازمین کو تنخواہیں فراہم کرتی ہے؟

دو سالہ جنگ کے دوران مرکزی سیاسی لیڈرشپ کے شہید ہونے کے باوجود فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس غزہ میں بھرپور طریقے سے اسرائیل کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے اور اپنے معاشی معاملات کو مشکل ترین حالات میں بھی خوش اسلوبی سے چلا رہی ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق طویل جنگ کے باوجود حماس سول سرونٹس کو خفیہ طریقے سے تنخواہیں جاری رکھے ہوئے ہیں اور دو سال کے دوران حماس نے 30 ہزار جنگجوؤں کو تنخواہوں کی مد میں 17 ملین ڈالر ادا کیے۔

بی بی سی نے غزہ کے 3 سول سرونٹس سے اس بات کی تصدیق کی کہ انہیں گزشتہ ہفتے کے دوران 300 ڈالر مہیا کیے گئے، یہ ان ہزاروں سول سرونٹس میں سے ہیں جو جنگ سے پہلے ملنے والی تنخواہ کا 20 فیصد ہر 10 ہفتے بعد وصول کر رہے ہیں۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق حماس غزہ میں سول سرونٹس کو تنخواہوں کی ادائیگی کے لیے طویل عرصے سے عوام سے بھاری ٹیکسز وصول کر رہی تھی، اس کے علاوہ انہیں قطر سے بھی امداد مل رہی تھی۔

رپورٹ کے مطابق حماس کا ملٹری ونگ القسام بریگیڈ کی تنخواہوں کا ایک علیحدہ نظام ہے، اور حماس کو ایران کی جانب سے بڑی امداد ملتی ہے۔

مصر میں پابندی کا شکار اخوان المسلمون کے ایک سینئر رہنما کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان کے بجٹ کا 10 فیصد حصہ حماس کے لیے مختص ہے۔

اسرائیل کی جانب سے غزہ کی تمام سرحدیں بند کیے جانے کی وجہ سے ہونے والی مہنگائی اور معمولی تنخواہیں ملنے کے باوجود حماس کے کارکنوں کے حوصلے بلند ہیں۔

صیہونی فورسز کی جانب سے امدادی سامان کی فراہمی بند ہونے کی وجہ سے غزہ میں شدید قحط سالی ہے اور ایک کلو آٹا 80 ڈالر میں فروخت ہو رہا ہے۔

گزشتہ روز مصری صدر عبدالفتح السیسی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اسرائیل غزہ میں قحط سالی کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کر رہا ہے جس کا مقصد فلسطینیوں کی جدوجہد کو کچلنا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق بینکنگ کا نظام نہ ہونے اور اسرائیلی فورسز کی جانب سے مسلسل حملوں کے باوجود حماس نے سول سرونٹس کو تنخواہوں کی فراہمی جاری رکھی ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق حماس کی جانب سے تنخواہوں کے لیے سول سرونٹس کو ان کے ذاتی موبائل پر یا پھر ان کے گھر والوں کے نمبر پر انکرپٹڈ میسجز بھیجے جاتے ہیں جس میں بتایا جاتا ہے کہ فلاں مقام پر جاکر دوست کے ساتھ چائے پی لیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مخصوص مقام پر پہنچنے کے بعد سول سرونٹس کے پاس ایک بندہ آتا ہے جن میں زیادہ تر خواتین شامل ہوتی ہیں، جو ملازمین کو بند لفافے میں ان کی تنخواہ دیتی ہیں اور واپس چلی جاتی ہیں۔

بی بی سی کے مطابق حماس کی وزارت مذہبی امور کے ایک ملازم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہر بار جب بھی میں تنخواہ لینے کے لیے جاتا ہوں تو اپنی اہلیہ اور بچوں کو اللہ حافظ کہہ کر جاتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں شاید واپس نہ پہنچ سکوں۔

متعلقہ ملازم نے بتایا کہ متعدد بار سیلری کی تقسیم کے دوران اسرائیلی حملے ہو جاتے ہیں اور ایک مرتبہ تو میں غزہ میں تنخواہ لینے کے دوران اسرائیلی حملے سے بچ بھی چکا ہوں۔

حماس کے زیر انتظام  غزہ میں چلنے والے اسکول کے ایک ٹیچر نے بتایا کہ اسے ایک ہزار شیکل (300 ڈالر) تنخواہ دی گئی جو کہ موجودہ حالات میں بہت کم ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ میں اس کا کیا کروں گا۔

اسکول ٹیچر نے بتایا کہ اسرائیلی اقدامات کی وجہ سے میں امدادی سامان کی تقسیم کی جگہ جانے پر مجبور ہوں، کبھی تو گھر والوں کے لیے آٹا مل جاتا ہے اور کبھی خالی ہاتھ گھر لوٹتا ہوں۔

یاد رہے کہ رواں برس مارچ میں اسرائیل نے خان یونس میں النصر اسپتال پر فضائی حملے کے دوران اسماعیل برہوم کو قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔ اسرائیلی فورسز کا دعویٰ تھا کہ اسماعیل برہوم حماس کے ملٹری ونگ کو فنڈ فراہم کرنے میں ملوث تھا۔

Loading