Daily Roshni News

نشر مکرر

نشر مکرر

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )دوستو! اس سچی کہانی کو، جو میں نے صدقۂ جاریہ کے طور پر لکھی ہے، ایک بار ضرور پڑھیے۔ میں چاہتا ہوں کہ

آپ یہ کہانی پڑھ کر اپنی رائے کا اظہار ضرور کیجیے۔

یہ قریب 18، 20 سال پہلے کی بات ہے۔ ایک صاحب، جو پاکستان میں گورنمنٹ کی جاب کیا کرتے تھے، اُن کو سیر و سیاحت کا بہت شوق تھا اور انہوں نے پاکستان کے تقریباً تمام ہی شہر دیکھ رکھے تھے۔

ان کو موقع ملا اور انہوں نے یورپ کے بھی بہت سے ممالک دیکھے، اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ ان کو برطانیہ کا ملٹی پل ویزا بھی مل گیا۔

وہ صاحب سیر و سیاحت کی غرض سے برطانیہ آئے۔ ان کو برطانیہ کا طرزِ زندگی اور ماحول بہت اچھا لگا۔

جن صاحب کے پاس وہ ٹھہرے ہوئے تھے، ان صاحب نے ان سے کہا کہ تمہارے ویزے پر کام کرنے کی اجازت تو نہیں ہے، لیکن میرے ایک دوست کا سپر اسٹور ہے اور وہ تمہیں کام پر رکھ سکتا ہے۔ تم کام کاج کر کے تھوڑے بہت پیسے بھی کما لو گے، اور سیر و سیاحت کا شوق بھی پورا کر لو گے۔

ان صاحب کو یہ مشورہ بہت اچھا لگا، اور انہوں نے غیر قانونی طور پر سپر اسٹور میں کام شروع کر دیا۔

ملٹی پل ویزا ہونے کی وجہ سے وہ کچھ ماہ برطانیہ رہتے، کام کرتے، اور پھر کچھ ہفتے پاکستان رہ کر واپس برطانیہ آ جاتے۔ یہ سلسلہ سالہا سال جاری رہا۔ انہوں نے خوب پیسے کمائے، اپنے کمائے ہوئے پیسوں سے بڑی سی کوٹھی بھی بنائی اور اپنی بیوی بچوں کو زندگی کی ہر آسائش بھی مہیا کی۔

پھر ایک دن ایسا ہوا کہ کام کے دوران ان صاحب کی طبیعت بگڑی، اور ایسی بگڑی کہ ان کو ہسپتال جانا پڑا۔ ڈاکٹر نے طبی معائنے کے بعد ان کو دل کے عارضے کا بتایا، اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ جیسے ہی وہ اپنے وطن واپس لوٹیں، اپنا مکمل علاج کروائیں۔

ان صاحب نے ڈاکٹر کی ہدایت کو سنی اَن سنی کر کے سپر اسٹور میں اپنا کام جاری و ساری رکھا، لیکن چند دن بعد ہی ان کی طبیعت اور زیادہ بگڑ گئی اور ان کو کام کاج چھوڑ کر گھر پر رہنا پڑ گیا۔

بیماری کی وجہ سے جسم بہت کمزور، لاغر سا ہو گیا، اور ہمت بھی آہستہ آہستہ جواب دینے لگی۔

ان کے دوست اور سپر اسٹور کے مالک نے ان کو مشورہ دیا کہ اب ان کو اپنے ملک واپس چلے جانا چاہیے، کیونکہ اب ان کے لیے یہاں پر کچھ نہیں۔

انہوں نے مشورے پر عمل کرتے ہوئے پاکستان جانا بہتر سمجھا، لیکن کچھ ہی عرصے میں یہ باتیں سننے کو ملیں کہ وہ صاحب واپس برطانیہ آنے کے پر تول رہے ہیں۔

انہوں نے متعدد بار سپر اسٹور کے مالک سے رابطہ بھی کیا، اور پوچھا کہ کیا وہ ان کو دوبارہ نوکری دے دے گا۔۔۔ لیکن اسٹور کے مالک نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ:

“ایک تو تمہاری صحت پہلے جیسی نہیں، اور دوسری بات یہ کہ غیر قانونی ہونے کی وجہ سے اگر کام کے دوران تمہیں کچھ ہو گیا تو میری بھی پکڑ ہو سکتی ہے۔”

اتنا سمجھانے کے باوجود بھی وہ صاحب برطانیہ آ کر نوکری کرنے پر بضد رہے۔

ان صاحب کے دوست اس بات پر حیران تھے کہ اتنا پیسہ کما لینے کے باوجود، بیماری کی حالت میں تمہیں کیا مجبوری ہے کہ تم واپس آنا چاہتے ہو؟

بہت ہی اصرار پر انہوں نے بتایا کہ اصل وجہ یہ ہے کہ پاکستان واپس آنے کے کچھ عرصے بعد ہی، ان کی بیماری کے باوجود، ان کی بیوی اور تینوں بیٹوں نے ان سے یہ مطالبہ شروع کر دیا کہ انہیں برطانیہ واپس جا کر نوکری کرنی چاہیے، جیسے وہ پہلے کر رہے تھے۔ اور یہ کہ مہنگائی کے اس دور میں ان کا اس طرح پاکستان واپس آ جانا ٹھیک نہیں۔

ان صاحب نے مزید بتایا کہ گھر کا ماحول دن بدن بگڑتا جا رہا ہے، اور میری بیوی اور بچوں کے مطابق میں اس چیز کا قصور وار ہوں، حالانکہ میں اب خود چاہتا ہوں کہ پاکستان میں رہ کر آرام کروں۔

بچوں کو بے دریغ پیسہ خرچ کرنے کی اتنی عادت پڑ چکی ہے کہ میری چھوٹی موٹی انویسٹمنٹ سے جو رقم آ رہی ہے، وہ ان کے لیے ناکافی ہے۔

یقین کیجیے دوستو! جب یہ بات میرے کانوں تک پہنچی تو مجھے انتہائی دکھ ہوا۔ میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ:

ہمارے مذہب میں جہاں شوہر کو “مجازی خدا” بھی کہا گیا، اور یہ کہ اگر اللہ کے بعد کسی کو سجدہ جائز ہوتا تو وہ شوہر کو ہوتا۔۔۔

اور دوسری طرف ہمارے مذہب اور معاشرے میں جو باپ کا درجہ اور رتبہ ہے، وہ شاید مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔

ان تمام تر چیزوں کے باوجود، کس طرح اس بیمار شوہر اور باپ کو بےبس کیا جا رہا ہے، اور وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اُس کام کو کرنے پر مجبور ہے جس کا کرنا اس کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

میں سوچ رہا تھا کہ ایسی سوچ رکھنے والے کتنے خود غرض ہوتے ہیں!

دوسروں کے احساسات، جذبات اور سوچوں کو یکسر مسترد کر کے اپنی سہولت اور مرضی کے مطابق حکم نامے جاری کر دیتے ہیں۔

جس شخص نے سالہا سال اپنی زندگی کے سنہرے سال اپنی بیوی اور بچوں کو آسائشیں دینے میں لگا دیے، وہ اب اپنی مرضی سے اپنے ملک، اپنے گھر میں بھی نہیں رہ سکتا؟

کیوں؟؟؟

ملکی حالات جتنے بھی خراب ہوں، کاروباری حالات جتنے بھی خراب ہوں۔۔۔

کیا تین جوان بچوں کے ہوتے ہوئے، اس بیمار باپ کو ایسا کام دوبارہ کرنے کا سوچنا چاہیے، جبکہ وہ خود بھی ایسا نہیں چاہتا؟

کیا اس بیوی کو اپنے شوہر کی تمام تر قربانیاں بھلا کر اس طرح طعنے دینے چاہییں؟

کیا ان تینوں لڑکوں کو، باپ کی کمائی پر نظر رکھنے کے بجائے، خود کمائی نہیں کرنی چاہیے؟

پھر سوچتا ہوں کہ شاید کہیں نہ کہیں اس شخص کا بھی قصور ہے، جو دولت کمانے کے چکر میں یہ بھول گیا کہ بچوں کی تربیت میں باپ کا ایک اہم کردار ہوتا ہے۔

دوستو! آپ یقین کریں، ایسے سینکڑوں واقعات ہیں جن کو دیکھ کر اور سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔

میں نہیں جانتا وہ صاحب اب کیا کریں گے، لیکن میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ ایسے کئی قصے ہیں جن میں دیارِ غیر میں مقیم بہت سے ایسے لوگ، جو ساری عمر غیر قانونی طور پر کام کرتے رہے، دیارِ غیر کی سختیاں جھیلیں، طرح طرح کی قربانیاں دیں اور بیوی بچوں کے لیے بے شمار پراپرٹی اور جائیداد بنائی —

لیکن خود ان کو کچھ بھی دیکھنا نصیب نہ ہوا، اور آخر میں لکڑی کے تابوت میں بند جسم پاکستان روانہ کیا گیا۔

میں تو تحریر کے اختتام پر صرف ایک بات کہوں گا:

اکٹھے رہ کر اگر آپ کی ضرورتیں پوری ہو رہی ہیں، تو خواہشوں کے پیچھے اتنا مت دوڑیے کہ کسی وقت کو پچھتانا پڑ جائے۔

اور دوسری بات یہ کہ:

اگر آپ کبھی بھی باہر کے ملک جانے کا سوچیں، تو خدارا! قانون کی پاسداری کرتے ہوئے جائیں، اور ایک چیز کو ذہن میں بٹھا لیں کہ اگر رب تعالیٰ نے آپ کا دانہ پانی کسی اور ملک کا لکھا ہے، تو وہ آپ لے کر ہی رہیں گے۔

اپنی رائے سے ضرور نوازیے گا۔۔۔

پوسٹ اچھی لگے تو کمنٹس اور شیئر ضرور کیجئے۔

اللہ پاک اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔

دعا کا طالب

محمد عظیم حیات

لندن

Loading