وہ6زاویے
تحریر۔۔۔ڈاکٹر صابر حسین خان
ہالینڈ(ڈیلی رو شنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ وہ6زاویے۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر صابر حسین خان)نہ گھر میں دل لگتا ہے نہ دوستوں کے درمیان۔ نیند بھی بہت دیر سے آتی ہے۔ روتا رہتا ہوں۔ رات میں بستر پر لیٹ کر۔ کبھی اپنے آپ کو ہیرو سمجھتا ہوں۔ سپر مین بن کر خیالوں ہی خیالوں میں امریکا فتح کر لیتا ہوں۔ اور جو شڑپ کر کے اپنی حالت پر نگاہ پڑتی ہے تو کھانا کھانے کو بھی دل نہیں کرتا“۔
یہ تھی آزاد کی پہلی ملاقات کی بات چیت، جنہیں ہم دونوں بعد میں بھی اکثر اپنی باتوں میں دہراتے تھے۔
بس سرا میں اپنے گھر والوں کو آپ کے پاس نہیں لا سکتا۔ وہ آپ کے پاس آنا بند کر دیں گے میرا اور میں کچھ کر بیٹھوں گا۔ مجھے یقین ہے سر! انشاء اللہ
میر اکچھ اچھا ہو گا!
آپ دیکھ لیجیے گا۔ میں آپ کو کچھ بن کے دکھاؤں گا۔ آپ جو بھی کہیں گے۔ جیسا کرنے کو کہیں گے میں کروں گا۔ ہر بات مانوں گا۔ بس آپ مجھے میری سوچ کے عذاب سے نکال دیں اور مجھ میں خود اعتمادی ڈال دیں۔“ آزاد نے پہلی ملاقاتوں میں کہا تھا۔ بہت سی باتیں با قاعدگی سے نہ کرنے کے باوجود اس نے بہت سی باتیں با قاعدگی کے ساتھ جاری رکھیں۔ دس سال کے ساتھ میں ایک ڈیڑھ سال کے دو وقفے بھی آئے جب آزاد علاج کی رسیاں توڑ کر بھاگ نکلا اور اسکرین سے غائب ہو گیا۔ لیکن پھر آخری سات برس تک
سے وہ Most Regular رہا۔
مجھے پتا چل چکا ہے سر! میں علاج اور دوا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے دو تین بار تجربہ کر کے دیکھ لیا۔ میرے دماغ میں کیمیکل کی کمی ہے اور وہ دواؤں سے ہی پوری ہو سکتی ہے۔ آپ بھی مجھ پر گولیاں کم کرنے کے تجربے نہ کیا کریں۔ مجھے پتا چل جاتا ہے۔ آپ دوائی کم کرتے ہیں اور میری طاقت کم ہونے لگتی ہے۔“ جب بھی کبھی میں آزاد کی ادویات کم کرنے کی کوشش کرتا وہ کوئی نہ کوئی علامت بیان کر کے کچھ اور دنوں تک میری کوشش ناکام بنادیتا اور آنے والے مریض جلد از جلد علاج ختم کروانے کی باتیں کرتے ہیں اور اکثریت از خود دوائیں بند کر کے غائب ہو جاتی ہے، اگلے کسی Episode تک۔ لیکن آزاد ان سب سے الگ تھا۔
میں ذائقہ چکھ چکا ہوں سرا بیچ بیچ میں سپر مین بننے کا۔ جب پہلی دفعہ آپ نے مجھے دوائیاں دی تھیں تو مجھے کچھ نہیں ہو ا تھا۔ آپ کو یاد ہے ناں۔ میں شور مچاتا ہوا روتا ہوا ایک ملنے کے بعد آیا تھا کہ مجھے کچھ فائدہ نہیں ہوا، تو آپ نے کہا تھا ناں کہ صبر کرو صبر ، حوصلہ رکھو، سب ٹھیک ہو جائے گا انشاء اللہ مگر آہستہ آہستہ ۔ اتنی جلدی کچھ نہیں ہوتا۔ تبدیلی جتنی جلدی آتی ہے وہ اتنی جلدی واپس بھی چلی جاتی ہے۔ اگر مستقل ٹھیک رہنا ہے اور بالکل ٹھیک ہوتا ہے اور حقیقی سپر مین بننا ہے تو کریز پر کھڑے رہو چپ کر کے۔ یہ دماغ کے Colls کا معاملہ ہے۔ دوائیاں، آہستہ آہستہ ہی اُن کے Level کو بڑھائیں گی۔ اور مجھے یاد ہے سر! تین ماہ کے بعد میں واقعی سپر مین بن چکا تھا۔“ آزاد اپنے ماضی کو یاد کر کے مسرور ہورہا تھا۔ اور پھر سپر مین بن کر جب میں ہواؤں میں اُڑنے لگا تھا اور ہر کام آگے بڑھ بڑھ کر کرنے لگا تھا اور بھائی کے کاروبار میں بھی جانا شروع کر دیا تھا تو پھر سوچ آئی تھی کہ اب میں بالکل ٹھیک ہو گیا ہوں اب کیوں دوائیاں کھاؤں، تو میں نے دوائیاں چھوڑ دی تھیں۔ پھر حج پر بھی تو چلا گیا تھا۔ مگر چار چھے ماہ میں
پھر پرانی سوچوں نے حملہ کر ڈالا۔ جب میں دوبارہ آپ کے پاس آیا تھا۔ یاد ہے آپ کو ؟ پھر دوبارہ علاج سے سوچیں ٹھیک ہو گئیں، مگر میں آج تک دوبارہ سپر مین نہیں بن سکا۔
آپ نے کچھ گڑبڑ کی تھی۔ کی تھی ناں….؟ آپ نے کہا تھا کہ اب ایسی دوائیاں نہیں ملیں گی کہ تم پھر ہواؤں میں اڑنے لگو۔ خود کو ٹپر مین سمجھنے لگو۔ میرے منہ میں آج بھی وہ سپر مین کا ذائقہ ہے۔ یار کیا مزے کے دن تھے۔ کسی چیز کسی بات سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ ساری دنیا کو میں بہت نیچے دیکھنے لگا تھا۔ اور دوسری مرتبہ تو علاج میں نے اس لیے چھوڑا تھا کہ میں Afford نہیں کر پارہا تھا۔ دوائیوں کا خرچہ میرے جیب خرچ سے زیادہ تھا۔ میں علاج کے لیے بھائی کے اکاؤنٹ سے چوری بھی کرتا تھا پھر جب میں پکڑ آگیا تھا تو بھائی کو بتا نہیں پایا تھا کہ میں نے اس کے چیوں سے کوئی عیاشی نہیں کی بل کہ اپنے علاج پر خرچ کیے ہیں۔ پھر میں دعائیں مانگتا تھا کہ اللہ مجھے ویسے ہی ٹھیک کر دے۔ پھر نوکری کی میں نے اور پیسے جمع کیے اور اب آپ دیکھ لیں۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اب میں Regular ہوں اور حقیقت و دل سے تسلیم کر چکا ہوں کہ بھلے مجھے تمام عمر دوا کھانی
پڑے، میں کھاؤ گا۔“
آزاد کی جدوجہد کے دس سال کی داستان کو چند سو لفظوں میں سمیٹنادشوار ہے، لیکن یہ بیچ ہے کہ اللہ تعالی کا اُس پر بڑا کرم تھا۔ اُس کا صبر ، برداشت، ثابت قدمی، مستقل مزاجی اور بغیر کسی گھریلو جذباتی سہارے کے یک و تنہا اپنی نفسیاتی بیماری سے لڑنا اور اسے شکست دینا اور پھر اللہ کے کرم و فضل سے اپنے ذاتی کاروبار کا مالک ہونا 60 ہزار کا نیا لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ Device لے کر فیس بک پر اکاؤنٹ بناتا اور خلیل جبران کی 20 چھوٹی چھوٹی کتابیں لے کر جاتا کہ ناول نہیں پڑھنا بل کہ اب کی بار فلسفہ پڑھنا ہے اور کہنا کہ “سر! آپ مجھے انگلش پڑھنا سکھا دیں۔ میں نے ایک چھوٹا انگریزی ناول لے کر رکھا ہوا ہے، میں اس کو پڑھوں گا اور جو لفظ یا پیراگراف سمجھ نہیں آئے گا، وہ آپ بتادیجیے گا۔“ یہ سب اللہ کا کرم نہیں تو اور کیا ہے۔
بے شک اللہ جس پر چاہے اپنا کرم کرے۔ لیکن کچھ اصول کچھ قوانین قدرت نے سب کے لیے یکساں رکھے ہیں۔ بیماری ہو یا معاشی تنگ دستی، تعلیم ہو یا کاروبار، ازدواجی زندگی ہو یا معاشرتی ہر جگہ صبر واستقامت، برداشت و تحمل اور مستقل ان تھک محنت، نیک نیتی و دیانت داری کی ہر لحظہ موجودگی ضروری ہے۔ اپنی بیماری یا کمی پر اللہ سے شکایت یا شکوہ کرنے کے بجائے خلوص اور ایمان داری سے اپنی ذات کے منفی پہلوؤں کو قبول کر کے صدق دل سے اُن کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے اور نتیجہ اللہ پر چھوڑ دیا جائے تو غیب کے پردے سے ہمارے لیے لازمی طور پر جلد یا بدیر اچھا ہی ہوتا ہے۔ آزاد کی مثال سامنے ہے۔ اس نے دس برسوں میں شکوہ بھی کیا، شکایتیں بھی کیں۔ اپنے آپ سے، اپنی زندگی اور بیماری سے مایوس ہو کر چوس بھی پی، شراب بھی چکھی۔ مگر اللہ نے اسے گناہ کبیرہ سے بچائے رکھا۔ اس نے ہمت نہ ہاری۔ انٹر کی واجبی تعلیم۔۔۔جاری ہے۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2017