نظریہ دائرہ و تکون کے حوالے سے ماورائی اجسام کی تفصیلات
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل)خدوخال نہ ملنے کی یہی وجہ ہے۔ کچھ ایسے ہی حالات سے متاثر ہو کر ’’ٹاؤمت‘‘ کو بھی بہت سے ادہام اور جادوگری کا اسیر ہونا پڑا۔ منگولی مذاہب میں آفتاب پرست اور مادہ پرست اور زرتشی عقائد رکھنے والوں نے یا تو ’’عالم امر‘‘ کو شیطانی اور رحمانی کے دو اصولوں پر محمول کیا ہے یا خودمظاہر کو ’’عالم امر‘‘ کی مرکزیت قرار دیا ہے۔ ان رویوں سے آہستہ آہستہ بت پرستی اور مظاہر پرستی کے عقائد مستحکم ہوتے گئے اور انسانی طبیعت مادی زندگی سے گریزاں رہنے لگی۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ مادی زندگی کل زندگی کا نصف ہے۔ اگر اس نصف کا کسی مسلک میں کوئی مقام نہیں ہے تو معاشی زندگی کی تمام تعمیریں مسمار ہو جائیں گی۔ اگر اس قسم کی وجوہات پیش آ جائیں تو مذہب کو خیال کی حدود میں مقید تسلیم کرنا پڑے گا۔ اور جب عملی زندگی کا ڈھانچہ مذہب کی گرفت سے آزاد ہو جائے تو عقائد میں بے راہ روی پیدا ہونا لازمی ہے۔ اس طرح کتنے ہی مذہب اعتدال کی راہوں سے ہٹ کر ’’عالم امر‘‘ اور ’’عالم خلق‘‘ کے حقائق سے نامانوس ہو گئے۔ بالآخر ’’عالم خلق‘‘ کی زندگی کے تقاضوں نے نوع انسانی کو رد عمل میں مبتلا کر دیا اور گزشتہ پانچ ہزار سال میں ایسے مذاہب کی بنیادیں پڑنے لگیں جن کا مقصد صرف حکومت اور ریاست اور مادی زندگی قرار پایا۔ ان مذاہب میں کنفیوشی، شنٹو اور یونانی فلسفہ کے نظام ہائے حکمت جس میں افلاطون، اس کے معاصرین کی تعلیمات اور موجودہ دور کے کمیونسٹ ملک قابل ذکر ہیں۔ ان سب کی بنیادیں صرف اس وجہ سے پڑیں کہ رائج الوقت مذاہب میں ’’عالم خلق‘‘ کے تقاضوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ چنانچہ یہی رد عمل لادینی کا سبب ہوا۔ قرآن پاک میں جگہ جگہ ان بے اعتدالیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
مذہب نام ہے ان عقائد کے مجموعوں کا جو انسانی اعمال اور محرکات کو وجود میں لاتا ہے۔ کتنے ہی مذاہب ایسے ہیں جن میں خدا کا تصور نہیں پایا جاتا مثلاً جین مت اور کمیونسٹ مذاہب جو ہزاروں سال پہلے سے اب تک وجود میں آتے رہے ہیں۔
انسانی عقل کے دو رخ ہیں۔ ایک رخ خارج کے بارے میں سوچتا ہے، دوسرا رخ ’’نفس‘‘ کے بارے میں۔ پہلا رخ مظاہر کو دیکھ کر جو کچھ خارج میں ہے اس کے بارے میں تجربات اور محسوسات کی حدیں قائم کرتا ہے۔ دوسرا رخ ’’نفس‘‘ کے متعلق فکر کرتا ہے اور مظاہر کی گہرائی میں جو امور منکشف ہوتے ہیں ان کی معرفت حاصل کرتا ہے۔ پہلے رخ کا استعمال عام ہے۔ اس کی تمام طرزیں اور فکریں وحی اور الہام سے الگ ہیں۔ البتہ دوسرا رخ وحی اور الہام سے وابستہ ہے جو پہلے رخ پر محیط ہے۔چنانچہ پہلا رخ یعنی ’’عالم امر‘‘ دوسرے رخ یعنی ’’عالم خلق‘‘ کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ پہلا رخ علم نبوت کی راہوں پر چل کر حقائق کا انکشاف کرتا ہے۔ دوسرا رخ اشیاء میں تلاش کے ذریعے مادیت کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ تمام مذاہب جو دوسرے رخ کی بنیادوں پر مرتب کئے گئے ہیں زیادہ تر لادینی، بت پرستی، مظاہر پرستی، مادیت پرستی اور فلسفیانہ قدروں پر مشتمل ہیں۔ یہ سب کے سب مادی علم یا علم حصولی کی راہوں پر چل کر اپنی منزلیں متعین کرتے ہیں۔ زیادہ تر ان کا رواج مشرق وسطیٰ کو چھوڑ کر دنیا کے دوسرے علاقوں میں پایا جاتا ہے۔ ان مذاہب میں ہزاروں فنا ہو چکے ہیں اور کتنے ہی باقی ہیں۔ یہ سب کے سب’’عالم امر‘‘ یعنی نفس کی اس زندگی کے لئے جو مرنے کے بعد شروع ہوتی ہے کوئی آسانی فراہم نہیں کرتے بلکہ اس قسم کی تجرباتی اور محسوساتی الجھنیں پیدا کرتے ہیں جو ابدالآباد کی تکالیف میں مبتلا کر دیتی ہیں۔”
قران مجید اللہ تعالٰی نے سورہ مومنون کی آیات نمبر 99 اور 100 میں مرنے کے بعد کا سارا نظام نوع انسانی کے سامنے رکھ دیا ہے جس پر تفکر کرکے کوئی بھی سالک حقیقت سے واقف ہوسکتا ہے
حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ(99)
یہاں تک کہ جب ان میں کسی کو موت آئے تو کہتا ہے کہ اے میرے رب مجھے واپس پھیر دیجئے۔
لَعَلِّیْۤ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَكْتُ كَلَّاؕ-اِنَّهَا كَلِمَةٌ هُوَ قَآىٕلُهَاؕ-وَ مِنْ وَّرَآىٕهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(100)
شاید اب میں کچھ بھلائی کماؤں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں ہِشت یہ تو ایک بات ہے جو وہ اپنے منہ سے کہتا ہے اور ان کے آگے ایک آڑ ہے اس دن تک جس میں اٹھائے جائیں گے۔
حضور قلندر بابا اولیاء رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات اور
قران مجید کی یہ آیات مشرقی مذاہب میں رائج آواگون یعنی”پونرجنم کی مکمل تردید کر دیتی ہیں،