وہ6زاویے
تحریر۔۔۔ڈاکٹر صابر حسین خان
ہالینڈ(ڈیلی رو شنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ وہ6زاویے۔۔۔ تحریر۔۔۔ڈاکٹر صابر حسین خان)کے باوجود میری بار بار تاکید اور ہدایت پر منتخب مضامین اور کتابیں پڑھتارہا۔ مخصوص Movies دیکھ کر گروپ ڈسکشن میں شامل ہو تا رہا۔ لیکن اُس کے اندر بنیادی تبدیلی اس وقت آنا شروع ہوئی جب قصوں، کہانیوں اور باتوں کے ساتھ اُس کے ذہن و
دل کے نہاں خانوں میں دل سے بغیر کسی توقع ولالچ کے دوسرے کی مدد کے بیچ، سبزے میں ڈھالنا شروع ہوئے۔
کسی بھی انسان کی زندگی میں، خواہ اس کا تعلق دنیا کے کسی خطے، کسی مذہب، کسی قوم سے ہو ۔ عام طور پر مجھے اہم اور بنیادی عوامل یا زاویے (Dimensions) تمام عمر محیط رہتے ہیں۔ کبھی کم یا زیادہ۔ کسی میں دو کسی میں چار اور شاذو نادر کسی کسی میں اچھے کے چھے زاویے ایک جیسی توانائی، روشنی اور طاقت کے ساتھ نمایاں ہوتے ہیں۔ آئیڈیل صورت حال اس وقت ہوتی ہے جب ایک فرد کی زندگی میں یہ اچھے کے اچھے پہلو یا حوالے، انہیں میں کے فرق سے کچھ کم کچھ زیادہ موجود ہوں اور اسے اُن سب سے اُن کے مطابق کام لینا اور کام کرنا بھی آتا ہو اور ان کے بارے میں کمی آگاہی بھی ہو۔
اعلی، کام یاب اور صحت مند زندگی کا ضامن ان چھے ڈائی مینشنز یا زاویوں کو ہم یہ نام دے سکتے ہیں۔ (1) جسمانی ( فزیکل۔Physical)
(2) جذباتی (ایمو قتل Emotional)
(3) نفسیاتی سائیکولوجیکل۔ Psychological یا
Logical – منطقی)
(4) سماجی (سوشل-Social)
(5) معاشی (ایکنومیکل-Economical)
(6) روحانی یا مابعد النفسیاتی( Spiritual یا پیراسائیکولوجیکل Para Psychological) یہ چھ بنیادی دائرے ہماری شخصیت، نفسیات اور زندگی میں ایک دوسرے سے اس طرح پیوستہ اور مربوط ہیں کہ محض ان کو سمجھنے کے لیے الگ الگ بیان کیا جا سکتا ہے۔ کسی ایک دائرے اور زاویے کے بھی ریشمی تاروں کو ادھیڑ ا جائے تو دیگر زاویوں کے تانے بانے بھی ادھڑ نے لگتے ہیں اور ہماری صحت، ہماری شخصیت، ہماری نفسیات اور ہماری زندگی متاثر ہونے لگتی ہے۔
المیہ یہ ہے کہ یا تو لوگوں کی اکثریت اس فطری، سائنسی اور نفسیاتی ترکیب و حقیقت سے واقف نہیں ہے اور یا پھر جو لوگ ان کے بارے میں علم رکھتے بھی ہیں وہ ان کے حقیقی معنوں اور فائدوں کو سمجھے بنا انہیں الگ الگ خانوں میں بانٹ کر زندگی گزار ہے ہیں۔
ہی وجہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے میں ذہن کا سکون قلب کا اطمینان اور روح کا سرور انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں سے رخصت ہو چکا ہے۔ معاشی طور پر متحکیم افراد، جسمانی و ذہنی صحت کی تلاش میں جوتے نھیں رہے ہیں۔ جیبیں خالی کر رہے ہیں۔ سماجی و سیاسی مرتبے کے حامل لوگ جذباتی اور روحانی بحران کا شکار ہیں۔ دل والوں کا دامن عقل اور پیسے دونوں سے خالی ہے۔ نفسیاتی و عقلی سطح کی بلندیوں کو چھونے والے اپنی دانش وری میں اتنے گم ہیں کہ ان کی نگاہ اوروں کے دُکھ درد تکالیف تک ہی نہیں جاپاتی۔ محض عبادات اور مذہبی رسوم اور رواجوں کے اسیر ہاتھوں کے نشانوں کو ہی روحانیت اور روحانی طاقت سمجھ بیٹھے ہیں اور جو واقعتاً مذہب سے بالا تر ہو کر روحانی اور مابعد نفسیاتی قوتوں کا ادراک رکھتے ہیں وہ عقلی، فکری، منطقی، اور سائنسی اصولوں سے عدم واقفیت کی بنا پر محض عامل یا جن اتارنے والے بنے ہوئے ہیں اور اس میں خوش ہیں۔ مکمل ذہنی، جسمانی، نفسیاتی، جذباتی اور روحانی صحت اور در خوف سے ہماری مکمل بھر پور معاشی اور سماجی زندگی اس وقت تک حاصل نہیں ہو پاتی جب تک ہم ان مجھے زاویوں کو ایک ساتھ لے کر نہیں چلتے اور ان کے تناسب اور توازن کا باقاعدہ اور با ضابطہ خیال نہیں رکھتے۔ کسی بھی لمحے کسی بھی زاویے کا رُخ مثبت سے منفی ہو جائے یا تناسب کم زیادہ ہونے لگے یا توازن ڈگمگانے لگے تو ہماری شخصیت، نفسیات اور صحت کے ساتھ ساتھ ہماری زندگی میں بھی عدم توازن آنے لگتا ہے اور ہم غیر محسوس طریقے سے اچانک یا آہستہ آہستہ کسی نہ کسی حوالے سے بیمار پڑنے لگتے ہیں۔
السر,Ulcer بلڈ پریشر Blood Pressure ، شوگر Diabetic، کینسر Cancer سے لے کر ان گنت ذہنی، اعصابی اور نفسیاتی اور دماغی بیماریوں سے لے کر روحانی و اخلاقی عوارض اور معاشی، جذباتی، ذاتی اور سماجی مسائل کا جم غفیر ہمارے دل بدن، ذہن اور روح کو کھو کھلا کر ناشروع کردیتا ہے۔ آزاد کی طرح لاکھوں نوجوان اپنی جوانی کی تابندگی و توانائی کو محض اسی وجہ سے وقت سے پہلے کھو دیتے ہیں کہ ان کی راہ نمائی اور مشاورت کے لیے نہ کسی کے پاس وقت ہوتا ہے اور نہ ہمارے نفسیاتی و روحانی حوالے سے کھوکھلے معاشرے میں اب اس طرح کا علمی، فکری، کتابی ماحول باقی ہے جہاں ذہنوں، دلوں اور روحوں کی آبیاری کے لیے قدیم و جدید علوم اور ان کے عمل کی افادیت کو اجاگر کرنے کے لیے اساتذہ کی شکل میں مثالیں موجود ہوں۔
اور ہر کوئی آزاد کی طرح Lucky یا خوش قسمت بھی نہیں ہو تا جو کم عمری میں کسی یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کیے بغیر، خود کو علامہ سمجھے بغیر، اپنے نصیب کی کمی اور بیماری کو برضاور غبت قبول کر کے ہیڈ ڈاؤن Head Down کر کے زندگی کو ہنسی خوشی طے کرنا شروع کر دے۔ اور اپنے تئیں اپنے چھے زاویوں کی نوک پلک سنوارتے رہنے کی مستقل کوشش میں لگار ہے۔
مجھے نہیں پتا کہ اب آزاد کا کیا حال ہے، لیکن امید یہی ہے کہ اگر آزاد بتائی ہوئی باتوں کے مطابق چلتارہا اور اُس سے کوئی بلنڈر Blunder نہیں ہوا اللہ کا کرم یو نہی اس پر نازل ہو تا رہا تو ایک دن ضرور اللہ تعالیٰ اسے کسی نہ کسی حوالے سے ٹپر مین بنادے گا۔ جب وہ اپنے تمام Conflicts سے نجات حاصل کر کے اپنے پیچھے آنے والوں کے مسائل حل کرنے اور ان کی دعائیں سمیلنے میں لگ جائے گا۔ میری آپ سب سے بھی یہی گزارش ہے کہ آپ جو ہیں اور جیسے ہیں، دل سے خود کو قبول کریں اور اپنے مسائل کے جائز حل تلاش کر کے، خوشی خوشی جینا شروع کر دیں۔ اپنی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرتے رہیں۔ انشاء اللہ آپ پھر ہمیشہ کام یابی سے جڑے رہیں گے۔(بشکریہ روزنامہ ایکسپریس)
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جولائی 2017