“جگر مراد آبادی – تعارف اور نمونہِ کلام”
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )میرے سرہانے رکھی ہیں دو کتب۔ کلیاتِ اقبال اور کلیات جگر۔وقتاً فوقتاً حسبِ مزاج کسی ایک کو دیکھ لیتا ہوں۔ دل چاہ رہا ہے کہ ایک کے حوالے سے کچھ بات ہو جائے۔ لہٰذا آج کی بات ’کلیاتِ جگر‘ کے حوالے سے۔
’کلیاتِ جگر‘ ۔ رئیس المتغزلین حضرت جگر مراد آبادی کا مجموعہ کلام
شہنشاہ تغزل رئیس المتغزلین جگر مراد آبادی کا اصل نام علی سکندر تھا۔ 6 اپریل 1890 کو بنارس میں پیدا ہوئے۔ علی سکندر سے جگر مرادآبادی بننے تک کا سفر یوں تو طویل سفر ہے لیکن شعور کی نظر میں یہ ایک فقط ایک جست ہے۔ میر تقی میر اور میر درد نے غزل کو جو خونِ دل دیا تھا جگر نے اسکی آبیاری خونِ جگر سے کی۔ انہوں نے غزل کو اپنے تغزل کی چاشنی بخشی۔غزل، تغزل، کلام میں سوز وگداز، شعر خوانی کا انداز، موسیقیت، نغمہ ریزی اور دل کو چھو جانے والا ترنم جگر کی اصل پہچان ہے۔ تاہم ایسا نہیں کہ ان کی شاعری درس حیات اور نکات اخلاق سے خالی ہے۔
جگر مراد آبادی کے مجوعہ ہائے کلام میں “داغِ جگر” “شعلئہ طور” اور “ آتشِ گل” کو بہت پزیرائی ملی ہے اور ان میں موجود غزلیں تغزل کی بہترین نمائیندہ غزلیں ہیں۔
جگر کی شاعری کا اگر تنقیدی جائزہ لیا جائے تو ان کی شاعری اور زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلا دور شراب وشباب اور رندی و مستی کا دور ہے جس میں جگر ذکر حسن و عشق اور بزم مے گساری میں گھرے رہتے۔ ان کاخیال تھا کہ
اگر نہ زہرہ جبینوں کے درمیاں گزرے
تو پھر یہ کیسے کٹے زندگی کہاں گزرے
ایسے اسلوب و طرز کی شاعری کرنے والا شاعر امتداد زمانہ کے اثر سے نہیں بچتا۔ آزادی کے بعد کے اثرات، ہجرت، خوں ریزی، قیامت خیز تباہی اور خاک و خون میں تڑپتی انسانیت اور دم توڑتی مشترکہ تہذیب نے جگر کی سرمستیوں کو صدمہ پہنچایا۔آتش گل جگر کے اسی ذہنی تغیر و انقلاب کی تخلیق ہے جو انسانیت سے حددرجہ محبت کی دلیل ہے۔ اسے ہم جگر کے دوسرے دور کی شاعری کہہ سکتے ہیں۔ ایسے ہی ماحول اور ایسی ہی فضا میں جگر کی تڑپ نے پکارا
فکر جمیل خواب پریشاں ہے آج کل
شاعر نہیں ہے وہ جو غزل خواں ہے آج کل
سلامت تو، تیرا میخانہ تیری انجمن ساقی
مجھے کرنی ہے اب کچھ خدمت دارورسن ساقی
میں نے نومبر میں علامہ اقبال رح کے یوم پیدائش کی مناسبت سے جو اک طویل تحریر لکھی تھی، اس میں نجانے کیسے جگر کا تذکرہ نہ ہو پایا۔ کتنے ہی شعرا کو یاد کر کے ان کا تذکرہ شامل کیا مگر پہلو میں بیٹھے جگر یاد نہ رہے۔ بہت دنوں تک اس بات کا قلق رہا تھا۔ لہٰذا اس کا مداوا آج کچھ کلام آپ کی نذر کر کے کرتا ہوں۔
کلام ِ جگر
پچھلی سطور میں ان کی شاعری کے دو ادوار کا جو حوالہ دیا ہے، اسی کی مناسبت سے شاعری کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ کیونکہ مجھے ترتیب زمانی سے ان کی شاعری میسر نہیں ، اس لئے یہ تقسیم میری سمجھ کے مطابق ہو گی(لازمی نہیں کہ اسی ترتیب سے ہی لکھی گئی ہوں )۔
اگر آپ موسیقی کے رسیا ہیں اور غزلوں سے مناسبت ہے تو یہ غزل یقیناً آپ نے سنی ہو گی۔ پڑھتے وقت اسی انداز سے لطف لیجئے۔
کچھ اس ادا سے آج وہ پہلو نشیں رہے
جب تک ہمارے پاس رہے، ہم نہیں رہے
یارب کسی کے رازِ محبت کی خیر ہو
دستِ جنوں رہے نہ رہے، آستیں رہے
دردِ غمِ فراق کے یہ سخت مرحلے
حیراں ہوں میں کہ پھر بھی تم، اتنے حسیں رہے
جا اور کوئی ضبط کی دنیا تلاش کر
اے عشق ! ہم تو اب تیرے قابل نہیں رہے
اللہ رے چشمِ یار کی معجز بیانیاں
ہر اک کو ہے گماں کہ مخاطب ہمیں رہے
اس عشق کی تلافیِ ما بعد دیکھنا
رونے کی حسرتیں ہیں جب آنسو نہیں رہے
……………………….
اور غور کیجئے ، جناب جگر نے کس انداز سے کیفیات تو غزل کا روپ بخشا ہے۔
………………………………
نیاز و ناز کے جھگڑے مٹائے جاتے ہیں
ہم اُن میں اور وہ ہم میں سمائے جاتے ہیں
شروعِ راہِ محبت، ارے معاذ اللہ
یہ حال ہے کہ قدم ڈگمگائے جاتے ہیں
یہ نازِ حسن تو دیکھو کہ دل کو تڑپا کر
نظر ملاتے نہیں، مسکرائے جاتے ہیں
مرے جنون تمنا کا کچھ خیال نہیں
لجائے جاتے ہیں، دامن چھڑائے جاتے ہیں
…..
اس کے ساتھ ہی دوسری غزل بھی یہی انداز ملاحظہ کیجئے۔
…….
مدت میں وہ پھر تازہ ملاقات کا عالم
خاموش اداؤں میں وہ جذبات کا عالم
اللہ رے وہ شدت جذبات کا عالم
کچھ کہہ کے وہ بھولی ہوئی ہر بات کا عالم
عارض سے ڈھلکتے ہوئے شبنم کے وہ قطرے
آنکھوں سے جھلکتا ہوا برسات کا عالم
وہ نظروں ہی نظروں میں سوالات کی دنیا
وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں جوابات کا عالم
……
اور کیا ہی خوب فرماتے ہیں کہ
………
اک لفظ محبت کا ادنیٰ یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دلِ عاشق، پھیلے تو زمانہ ہے
کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے
ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے
یہ عشق نہیں آساں اتناہی سمجھ لیجے
اک آگ کا دریا ہے اورڈوب کے جانا ہے
آخری شعر تو ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ ضرب المثل سے ان کا ایک اور شعر بھی یاد آیا۔
……..
اِن کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
مرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
…….
مزید ایک غزل ملاحظہ کیجئے ، ذرا ترنم سے گنگنائیے اور موسیقیت کا مزہ لیجئے۔
…….
آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے
بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے
آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے
مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے
کاروبارِ جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے
روح کو بھی مزہ محبت کا
دل کی ہمسایگی سے ملتا ہے
………..
اور
……….
وہ کب کے آئے بھی اور گئے بھی ، نظر میں اب تک سما رہے ہیں
یہ چل رہے ہیں وہ پھر رہے ہیں، یہ آرہے ہیں وہ جا رہے ہیں
وہی قیامت ہے قد بالا، وہی ہے صورت وہی سراپا
لبوں کو جنبش، نگہ کو لرزش، کھڑے ہیں اور مُسکرا رہے ہیں
وہی لطافت، وہی نزاکت، وہی تبسم، وہی ترنم
میں نقش حرماں بنا ہوا ہوں، وہ نقشِ حیرت بنا رہے ہیں
خرامِ رنگیں، نظامِ رنگیں، کلام رنگیں، پیام رنگیں
قدم قدم پر، روش روش پر ، نئے نئے گُل کھلا رہے ہیں
شباب رنگیں، جمال رنگیں، وہ سر سے پا تک تمام رنگیں
تمام رنگیں بنے ہوئے ہیں، تمام رنگیں بنا رہے ہیں
تمام رعنائیوں کے مظہر، تمام رنگینیوں کے منظر
سنبھل سنبھل کر، سمٹ سمٹ کر سب ایک مرکز پر آرہے ہیں
بہار رنگ و شباب ہی کیا، ستارہ و ماہتاب ہی کیا
تمام ہستی جھکی ہوئی ہے، جدھر وہ نظریں جھکا رہے ہیں
شراب آنکھوں سے ڈھل رہی ہے، نظر سے مستی اُبل رہی ہے
چھلک رہی ہے، اچھل رہی ہے، پئے ہوئے ہیں پلا رہے ہیں
خود اپنے نشے میں جھومتے ہیں، وہ اپنا منہ آپ چومتے ہیں
خرام مستی بنے ہوئے ہیں، ہلاکِ مستی بنا رہے ہیں
وہ روئے رنگیں وہ موجۂ نسیم کہ جیسے دامانِ گل پہ شبنم
یہ گرمیِ حسن کا ہے عالم، عرق عرق میں نہا رہے ہیں
یہ مست بلبل بہک رہی ہے، قریبِ عارض چہک رہی ہے
گلوں کی چھاتی دھڑک رہی ہے ، وہ دستِ رنگیں بڑھا رہے ہیں
یہ موجِ دریا، یہ ریگ صحرا، یہ غنچہ و گل یہ ماہ و انجم
ذرا جو وہ مسکرا دیئے ہیں، یہ سب کے سب مسکرا رہے ہیں
فضا یہ نغموں سے بھر گئی ہے کہ موجِ دریا ٹھہر گئی ہے
سکوت نغمہ بنا ہوا ہے، وہ جیسے کچھ گنگنا رہے ہیں
اب آگے جو کچھ بھی ہو مقدر، رہے گا لیکن یہ نقش دل پر
ہم ان کا دامن پکڑ رہے ہیں، وہ اپنا دامن چھڑا رہے ہیں
ذرا جو دم بھر کو آنکھ جھپکی، یہ دیکھتا ہوں نئی تجلی
طلسم صورت مٹا رہے ہیں، جمال معنی بنا رہے ہیں
……
اور مزید ۔۔
…….
کس نظر سے آج وہ دیکھا کیا
دل میرا ڈوبا کیا، اچھا کیا
حسن سے بھی دل کو بے پروا کیا
کیا کیا اے عشق! تو نے کیا کیا
تو نے سو سو رنگ سے پردا کیا
دیکھنے والا تجھے دیکھا کیا
وہ بھی نکلی اک شعاع برق حسن
میں جسے اپنی نظر سمجھا کیا
لذت نا کامیابی، الاماں!
تو نے ہر امروز کو فردا کیا
اب نظر کو بھی نہیں دم بھر قرار
اس نے بھی انداز دل پیدا کیا
ان کے جاتے ہی یہ حیرت چھا گئی
جس طرف دیکھا کیا، دیکھا کیا
مجھ سے قائم ہیں جنوں کی عظمتیں
میں نے صحرا کو جگر صحرا کیا
……….
اب کچھ نمونہ جات دوسرے دور سے بھی ہو جائیں۔ اس میں خاص یہ ہے کہ مضامین میں عشقِ مجازی سے زیادہ عشقِ حقیقی کا تذکرہ ہے اور صوفیانہ رنگ ملتا ہے۔ابتدا میں ایک شعر
……….
جز عشق معتبر یہ کسی کو خبر نہیں
ایسا بھی حسن ہے جوبقید نظر نہیں
……..
مزید ایک شعر
………
نوید ِبخشش ِعصیاں سے شرمسار نہ کر
گناہ گار کو یا رب! گناہ گار نہ کر
………
اور کیا ہی کمال قطعہ ہے۔ سبحان اللہ
……..
ہزاروں قربتوں پر یوں مرا مہجور ہو جانا
جہاں سے چاہنا انکا وہیں سے دور ہو جانا
جگر وہ حُسنِ یک سوئی کا منظر یاد ہے اب تک
نگاہوں کا سمٹنا اور ہجومِ نور ہو جانا
………
غزل پیش خدمت ہے۔
……….
تجھی سے ابتدا ہے، تو ہی اک دن انتہا ہوگا
صدائے ساز ہوگی اور نہ ساز بے صدا ہوگا
ہمیں معلوم ہے، ہم سے سنو محشر میںکیا ہوگا
سب اس کو دیکھتے ہوںگے، وہ ہم کو دیکھتا ہوگا
سرمحشر ہم ایسے عاصیوں کا اور کیا ہوگا
درِجنت نہ وا ہوگا، درِ رحمت تو وا ہوگا
جہنم ہو کہ جنت ، جو بھی ہوگا فیصلہ ہوگا
یہ کیا کم ہے ہمارا اور اُن کا سامنا ہوگا
ازل ہو یا ابد دونوں اسیر زلف حضرت ہیں
جدھر نظریںاُٹھاؤ گے، یہی اک سلسلہ ہوگا
یہ نسبت عشق کی بے رنگ لائے رہ نہیںسکتی
جو محبوب خدا ہوگا، وہ محبوبِ خدا ہوگا
اسی امید پر ہم طالبان درد جیتے ہیں
خوشا دردے کہ تیرا درد، در د ِ لا دوا ہوگا
نگاہِ قہر پر بھی جان و دل سب کھوئے بیٹھا ہے
نگاہِ مہر عاشق پر اگر ہوگی تو کیا ہوگا
یہ مانا بھیج دے گا ہم کو محشر سے جہنم میں
مگر جو دل پہ گذرے گی، وہ دل ہی جانتا ہوگا
سمجھتا کیا ہے تو دیوانگاہِ عشق کو زاہد؟
یہ ہو جائیں گی جس جانب، اسی جانب خدا ہوگا
جگر کا ہاتھ ہوگا حشر میں اور دامنِ حضرت
شکایت ہوگا، شکوہ جو بھی ہوگا، برملا ہوگا
……
مزید فرماتے ہیں۔
…….
وہ ادائے دلبری ہو کہ نوائے عاشقانہ
جو دلوں کو فتح کر لے، وہی فاتح زمانہ
یہ ترا جمالِ کامل، یہ شباب کا زمانہ
دلِ دشمناں سلامت، دلِ دوستاں نشانہ
کبھی حسن کی طبیعت نہ بدل سکا زمانہ
وہی نازِ بے نیازی، وہی شانِ خُسروانہ
میں ہوں اس مقام پر اب کہ فراق و وصل کیسے؟
مرا عشق بھی کہانی، ترا حسن بھی فسانہ
مری زندگی تو گزری ترے ہجر کے سہارے
مری موت کو بھی پیارے کوئی چاہئیے بہانہ
ترے عشق کی کرامت، یہ اگر نہیں تو کیا ہے
کبھی بے ادب نہ گزرا مرے پاس سے زمانہ
تری دُوری و حضوری کا عجیب ہے یہ عالم
ابھی زندگی حقیقت، ابھی زندگی فسانہ
مرے ہم صفیر بلبل، مرا تیرا ساتھ ہی کیا
میں ضمیرِ دشت و دریا، تو اسیرِ آشیانہ
میں وہ صاف ہی نہ کہہ دوں ، ہے جو فرق مجھ میں تجھ میں
ترا درد دردِ تنہا ، مرا غم غمِ زمانہ
ترے دل کے ٹوٹنے پر ہے کسی کو ناز کیا کیا!
تجھے اے جگر! مبارک یہ شکستِ فاتحانہ
…….
ایک اور بہترین اور کمال غزل ۔
………
یہ مصرع کاش نقشِ ہر در و دیوار ہو جائے
جسے جینا ہو ، مرنے کے لئے تیار ہو جائے
وہی مے خوار ہے ، جو اس طرح مے خوار ہو جائے
کہ شیشہ توڑ دے اور بے پئے سرشار ہو جائے
دلِ انساں اگر شائستہ اسرار ہو جائے
لبِ خاموشِ فطرت ہی لبِ گفتار ہو جائے
ہر اک بےکار سی ہستی بہ روئے کار ہو جائے
جنوں کی رُوحِ خوابیدہ اگر بیدار ہو جائے
سنا ہے حشر میں ہر آنکھ اُسے بے پردہ دیکھے گی
مجھے ڈر ہے ، نہ توہین جمالِ یار ہو جائے
حریم ناز میں اس کی رسائی ہو تو کیوں کر ہو ؟
کہ جو آسودہ زیر سایۂ دیوار ہو جائے ؟
معاذ اللہ ، اس کی وارداتِ غم ، معاذ اللہ
چمن جس کا وطن ہو ، اور چمن بیزار ہو جائے
یہی ہے زندگی تو زندگی سے خودکشی اچھی
کہ انساں عالمِ انسانیت پر بار ہو جائے
اک ایسی شان پیدا کر کہ باطل تھرتھرا اُٹھے
نظر تلوار بن جائے ، نفس جھنکار ہو جائے
یہ روز و شب ، یہ صبح و شام ، یہ بستی ، یہ ویرانہ
سبھی بیدار ہیں انساں اگر بیدار ہو جائے
……….
آخر میں ایک شہرہ آفاق غزل پیش کرتا ہوں۔
………
ہم کو مٹا سکے ، یہ زمانے میں دم نہیں
ہم سے زمانہ خود ہے ، زمانے سے ہم نہیں
بے فائدہ الم نہیں ، بے کار غم نہیں
توفیق دے خُدا تو یہ نعمت بھی کم نہیں
میری زباں پہ شکوہَ اہلِ ستم نہیں
مجھ کو جگا دیا ، یہی احسان کم نہیں
یارب ہجومِ درد کو دے اور وسعتیں
دامن تو کیا ابھی ، میری آنکھیں بھی نم نہیں
شکوہ تو ایک چھیڑ ہے ، لیکن حقیقتاً
تیرا ستم بھی تیری عنایت سے کم نہیں
زاہد کچھ اور ہو نہ ہو مے خانے میں مگر
کیا کم یہ ہے کہ فتنۂ دیر و حرم نہیں
مرگِ جگر پر کیوں تیری آنکھیں ہیں اشک ریز؟
اک سانحہ سہی، مگر اتنا اہم نہیں
1960 میں جگر مراد آبادی اس دنیائے فانی سے عالم ِ بقا کی جانب رخصت ہو گئے۔ اور شاید انہی کے ساتھ ہی کلاسیکی اردو شاعری بھی رخصت ہو گئی۔ جنابِ جگر خود ہی فرما گئے تھے کہ
جان کر منجملہٴ خاصان میخانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے
سلمان امروہوی