جب سکندرِ اعظم ایک بار کسی جنگ سے لوٹا، تو اسے معلوم ہوا کہ ریاست میں کچھ لوگ اس کی پالیسیوں سے اختلاف کر رہے ہیں۔ وہ ناراض ہوا اور چاہا کہ اُن سب کو سزا دی جائے تاکہ باقی رعایا کے دل میں خوف بیٹھ جائے۔
اس نے اپنے استاد ارسطو سے مشورہ کیا:
“کیا ایک بادشاہ کو یہ حق نہیں کہ وہ اختلاف کرنے والوں کی زبان بند کر دے؟”
ارسطو نے مسکرا کر ایک چراغ جلایا، اور کہا:
“سکندر، اس چراغ کو دیکھو۔ یہ روشنی دیتا ہے، لیکن اگر تم اسے ڈھانپ دو، تو کیا روشنی ختم ہو جائے گی؟”
سکندر نے کہا:
“نہیں، روشنی اندر ہی اندر جلتی رہے گی، لیکن باہر نظر نہیں آئے گی۔”
ارسطو نے جواب دیا:
“بس یہی حال اختلافِ رائے کا ہے۔ اگر تم لوگوں کی آواز دبا دو گے، تو اُن کے خیالات ختم نہیں ہوں گے، بلکہ اندر ہی اندر سلگتے رہیں گے، اور ایک دن شعلہ بن کر بھڑک اٹھیں گے۔”
“ایک عقلمند حکمران اختلاف سے گھبراتا نہیں، بلکہ اُس سے سیکھتا ہے۔ کیونکہ جب سب تم سے متفق ہوں، تو تمہیں آئینہ کون دکھائے گا؟”
یہ الفاظ سکندر کے دل میں اُتر گئے۔ اُس نے نہ صرف اختلاف برداشت کیا، بلکہ اپنی عدالت میں اُن لوگوں کو جگہ دی جو اُس سے مختلف رائے رکھتے تھے۔
یہ واقعہ آج کے معاشرے کے لیے ایک روشن مثال ہے۔ جہاں ہر شخص چاہتا ہے کہ صرف اُس کی بات سنی جائے، وہیں ایک مہذب معاشرہ وہ ہوتا ہے جو اختلاف کو دشمنی نہیں، ترقی کا زینہ سمجھتا ہے. سوچنے، سوال کرنے، اور اختلاف رکھنے کا حق چھین لیا جائے، تو صرف خاموشی باقی رہتی ہے — اور جہاں خاموشی ہو، وہاں سچ کبھی سامنے نہیں آتا۔