Daily Roshni News

خود غرضی

ایک سرسبز و شاداب وادی میں وسیع و عریض باغ واقع تھا۔باغ کے وسط میں ایک بہت پرانا کنواں بھی موجود تھا۔یہ باغ کسی وقت میں بہت سے درختوں کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔چنار، شہتوت، املی اور جامن جیسے درخت یہاں کی زینت تھے۔یہ درخت سایہ فراہم کرتے تھے۔ان پر بسنے والے رنگ برنگے پرندے اس باغ کو گلستاں بنا دیتے تھے۔

ایسی ہی شاخوں پر خوش رنگ تتلیاں منڈلاتیں، جگنو راتوں کو چراغاں کرتے۔یہیں پر قدیم شہتوت کے درخت پر چمن نامی چڑیا کا گھونسلہ تھا۔اس کے قریب بڑے سے چنار پر کالو نامی کوا رہتا تھا۔دونوں میں دیرینہ دوستی تھی مگر یہ دوستی یک طرفہ تھی۔چمن ہر خوشی کا موقع اپنے دوست کے ساتھ بانٹتی۔وہ میٹھے میٹھے پھل، بیج یا دانے لے کر چنار کی شاخوں پر آتی اور کالو خوشی سے آ کر لے جاتا لیکن شکر تو دور کبھی حال چال بھی نہ پوچھتا۔چمن بہت معصوم تھی، وہ یہ سب کچھ خلوصِ دل سے کرتی رہی۔ایک دن باغ میں موسم خوشگوار تھا۔نیلے آسمان پر روئی جیسے بادل تیر رہے تھے اور سبز پتوں پر شبنم کی بوندیں جھلک رہی تھیں۔چمن نے موقع کی مناسبت سے پرندوں کے لئے خاص اہتمام کر رکھا تھا۔کالو بھی اس سے خوب فیض یاب ہوا۔
اگلی ہی رات چمن کے ہاں پرانے رشتے دار مہمان بن کر آ گئے۔چمن نے جلدی سے کھانا بنانا شروع کیا مگر اسے پتہ چلا کہ اس کے گھر تو نمک ہی ختم ہو چکا ہے۔

وہ بے چینی سے کالو کے درخت کی طرف گئی، دروازے پر دستک دی اور بولی:”کالو بھائی؟ نمک چاہیے تھوڑا سا۔مہمان آ گئے ہیں۔“
کالو نیند سے اُٹھ کر دروازے پر آ کر بولا:”میری طبیعت ٹھیک نہیں، میں سو رہا ہوں، کل آنا اور دروازہ بند کر دیا۔“
چمن حیران و پریشان اپنے گھونسلے میں واپس آئی۔وہ دل ہی دل میں کچوکے کھاتی رہی کہ اس نے تو کبھی انکار نہیں کیا۔

خیر، اس نے کھانا مہمانوں کے سامنے رکھ دیا۔اگلی رات طوفانی ہوائیں چلنے لگیں، بادل گرجنے لگے اور موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔چنار کا پرانا درخت بارش میں ہلنے لگا اور کالو کا گھونسلہ زمین بوس ہو گیا۔وہ خود بھیگ کر کانپ رہا تھا۔اس کا سارا سامان بہہ گیا۔اُسے اچانک چمن کا خیال آیا۔وہ کیچڑ میں لت پت، کانپتا ہوا چمن کے گھونسلے تک پہنچا اور اس کے دروازے پر دستک دی۔

کون ہے؟ چمن نے چونک کر پوچھا۔میں ہوں․․․․کالو! لرزتی آواز میں اس نے جواب دیا۔چمن کو غصہ تو بہت آیا، لیکن اس نے دروازہ پھر بھی کھول دیا، کالو کو اندر آنے دیا۔اسے سردی کے بچاؤ کے لئے چادر دی۔شکریہ، بہن، آپ آرام کریں، میں سو جاتا ہوں، کالو بولا۔چمن اپنے پر سمیٹ کر چپ چاپ گھونسلے کے کونے میں جا بیٹھی۔صبح کا اُجالا پھیلتے ہی وہ وہاں سے نکل گیا۔

چمن باہر دانا دنکا چگنے گئی ہوئی تھی۔کالو کو شکریہ ادا کرنے کی توفیق نہیں ہوئی اور وہ چپ چاپ پھر سے نکل گیا۔چمن واپس آئی تو اسے بہت حیرت ہوئی۔اس کی آنکھیں بھر آئیں۔وہ بہت دیر تک چپ رہی۔یہی سوچتی رہی کہ شاید کچھ فطرتیں ایسی ہی خود غرض ہوتی ہیں، ان کو کبھی کوئی نہیں بدل سکتا۔کالو بھی شاید ایسا ہی ہے۔بچو! سچی دوستی میں خلوص اور وفاداری ضروری ہوتی ہے۔جو صرف اپنے مطلب کے وقت ساتھ دے، وہ دوست نہیں، موقع پرست ہوتا ہے۔اور جو دل دکھا کر بھی معاف کر دے، وہی سچا اور وفادار ہوتا ہے۔

Loading