گفتگو11_صفحہ نمبر 24__28
حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ)فقیروں کی دنیا میں یا درویشوں کی دنیا میں اس لیے کہتے ہیں کہ خواہش نہ کر کیونکہ بن مانگے ہی ملتا جا رہا ہے، ہمیشہ ہی بارش ہوتی ہے، ہمیشہ ہوتی ہے، ہمیشہ ہی زمین سے پودے نکلتے ہیں، اب جو بارش کے لئے بے تاب ہونا ہے کہ یا اللہ آج بارش کر دے، تو آج نہیں تو کل ہو جائے گی، چلو اگلے سال تو ضرور ہی ہو جائے گی کیونکہ یہ نظام اس کا ہے اور چلانا اس نے آپ ہے، آپ کہتے ہیں کہ یااللہ لوگ بھوک سے مر جائیں گے تو کیا اسے نہیں پتہ، لوگ اس کے، کھانے اس کے،چلانا اس نے ہے، دنیا کی آبادی اس کی اپنی چال ہے، تم اس کی آبادی کی کیا فکر کر رہے ہو کہ یا اللہ میں چاہتا ہوں اس غریب کو کچھ نہ کچھ پیسہ مل جانا چاہیے – غریب اس نے پیدا کیا اور وہ کئی غریبوں کو غریب بنا کر قریب کر لیتا ہے اور کسی انسان کو پیسہ دے کے دور کر دیتا ہے – اس لیے نہ پیسہ سکون کا نام ہے، نہ غریبی سکون کا نام ہے، صرف اللہ کے فضل کا نام ہے – وہ غریبی جو اللہ کے قریب ہو اس کا احسان ہے اور وہ پیسہ جو اس کا قرب عطا کرے، وہ بھی اس کا احسان ہے – اس لیے میں پہلے سے بار بار بتا رہا ہوں کہ غریب امیر کی تقسیم نہیں ہے بلکہ تقسیم کس بات کی ہے؟ کہ وہ غریب جو اللہ کے فضل کو مانتا ہے اور وہ امیر جو اس کے فضل کو مانتا ہے – تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سکون اس کا فضل ہے اور اس کی مہربانی ہے__
تھوڑی دیر کے لئے خواہشات چھوڑ ہی دیں تو کیا قیامت آ جائے گی – پھر وہ اصل خواہش پیدا ہو جائے گی کہ جس سے تم نعمتیں مانگ رہو اس سے تم اسی کو مانگو! پھر تو نعمتیں آپ کی اپنی ہو جائیں گی – یعنی جب منعم ہی ساتھ آ جائے گا تو نعمتیں آپ کی اپنی ہو جائیں گی___
گفتگو11_____صفحہ نمبر 24__28
حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ