Daily Roshni News

سیلاب کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟۔۔۔تحریر  ۔۔۔ سہیل افضل

سیلاب کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

تحریر  ۔۔۔ سہیل افضل

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سیلاب کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟۔۔۔تحریر  ۔۔۔ سہیل افضل)کیا سیلاب کی روک تھام کا بہترین طریقہ پانی کو اس کے قدرتی راستوں پر بہنے دینا ہے، اور کیا ڈیمز جیسے مصنوعی ڈھانچے بڑے سیلابوں کے خطرے کو بڑھاتے ہیں؟

​میرے نزدیک دریاوں کے قدرتی راستوں کا احترام کرنا اور پانی کے بہاؤ کو بے جا روکنے سے گریز کرنا ایک اہم ماحولیاتی اصول ہے۔ لیکن صرف اسی پر انحصار کرنا بڑے پیمانے پر آنے والے سیلابوں کے لیے کافی نہیں ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ قدرتی اور مصنوعی دونوں طریقوں کو ملا کر ہی سیلابوں کی روک تھام کا ایک جامع منصوبہ بنایا جا سکتا ہے۔

​سیلاب کی روک تھام کے لئیے دنیا بھر میں

​کئی طریقے اپنائے جاتے ہیں

​اس کا قدرتی حل سب سے پہلے یہ ہے۔ سب سے پہلے آپ لوگ آپنے دریاؤں کے کناروں کو محفوظ کریں۔ اس کے لئیے دریاؤں کے کناروں پر درخت لگانا اور قدرتی دلدلی علاقوں  کو بحال کرنا ضروری ہے تا کہ پانی کا بہاؤ اس کی وجہ سے قدرتی طور پر سست ہو یا یہ انہیں سست کرنے میں یہ آقدام ہماری مدد کرتا ہے ۔ دریاوں کے آس پاس یہ گیلے دلدلی علاقے سیلاب کے پانی کو جذب کرنے اور سست کرنے میں بھی ہماری مدد دیتے ہیں۔

اس کے علاوہ پانی کے قدرتی راستوں کو بحال کرنا شہری

 علاقوں میں جہاں  پانی کے قدرتی بہاؤ کے راستے ختم کر دیے گئے ہیں، وہاں پر ان کو دوبارہ سے بحال کرنا ضروری ہے۔ اس سے پانی زمین میں جذب ہو سکتا ہے اور شہری علاقوں کا سیلابوں سے بچاؤ بھی ممکن ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جنگلات لگانا پہاڑی اور بالائی علاقوں میں جنگلات کا ہونا بارش کے پانی کو آہستہ آہستہ زمین میں جذب ہونے دیتا ہے، جس سے سیلاب کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔

 جدید سائنسی طریقے  جیسے ڈیمز اور بیراجز کا استعمال پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے کیا جاتا  ہے، خاص طور پر بارشوں کے موسم میں۔ یہ سیلاب کے خطرے کو کافی حد تک کم کر سکتے ہیں۔  تاہم، ڈیمز کا انتخاب اور ڈیزائن بہت احتیاط سے کرنا چاہیے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بڑے ڈیمز بہت بڑے سیلابوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور کبھی   کبھی تو خود بھی خطرے کا باعث بن سکتے ہیں۔ ہماری یہ بدقسمتی ہے ہمارے ہاں یر سال چھوٹے بڑے سیلاب آتے ہیں لیکن ہم ان سے کچھ نہیں سیکھ پاتے۔

آج بھی ہمارے ہاں سوشل میڈیا پر شور یہ مچایا جا رہا ہے کہ انڈیا نے جان بوجھ کر پانی چھوڑا ہے ان دریاؤں میں۔ حقیقت یہ ہے کہ جب کسی علاقے میں تین سے چار سو ملی میٹر بارش ہو تو پھر پانی اس قدر زیادہ ہو جاتا ہے کے اس کے لئیے ڈیم بھی کمزور پڑھ جاتے ہیں۔ اب ایسے ہنگامی حالات میں پھر کوئی بھی ملک آپنے ڈیمز کے دروازے بند نہیں رکھ سکتا۔

ہمیں اگر ان مسائل سے نمٹنا ہے مستقبل میں تو ہمیں ترجیحی بنیادوں پر کام کرنا ہو گا خصوصی طور پر ان دریاؤں کے آس پاس نئی آبادیوں کو بننے سے روکنا ہو گا۔ ان آبی گزرگہاوں کے آس پاس کے علاقوں کو کھلا رکھنا ہو گا تا کہ ہمارا کم سے کم جانی اور مالی نقصان ہو۔ یہ سبھی کام حکومت اس سیلاب سے نمٹنے کے بعد ہنگامی بنیادوں پر کرے تو اگلے سیلاب آنے سے پہلے ہم کچھ حد تک خود کو ان آفات سے  محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ ورنہ پھر یہی الزام تراشی ایک دوسرے پر۔ اور اسی طرح ان قدرتی آفات سے ہماری تباہی ہوتی رہے گی۔۔

تحریر: سہیل افضل

Loading