جنت کمانے کے مواقع ہمارے اردگرد بکھرے ہوئے ہیں
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )مجھے بچے کے لیے ایک سائیکل خریدنی تھی۔ سرگودھا سائیکل مارکیٹ گیا تو ایک مشہور دکان پر رکا۔ رش زیادہ تھا، اپنی باری کا انتظار کرنے لگا۔
اسی دوران ایک والد اپنے بیٹے کے لیے سائیکل لے رہا تھا۔ بیٹے کو جو سائیکل پسند تھی وہ باپ کی قوتِ خرید سے بہت زیادہ تھی، بچہ ضد کر رہا تھا اور مان نہیں رہا تھا۔ والد نے نہ جانے کان میں کیا کہا کہ بچہ اچانک خاموش ہوگیا۔ پھر دوسری سائیکل لی اور دونوں چلے گئے۔
میں نے اپنی سائیکل طے کی اور نماز کے لیے چلا گیا۔ کچھ دیگر کام نمٹا کر جب دو گھنٹے بعد واپس آیا تو وہی شخص دوبارہ سائیکل سمیت دکان پر کھڑا تھا۔
وہ ساٸیکل واپس کرنا چاہتاتھا لیکن دوکاندار کا سیل مین واپس نہیں کررہاتھا۔ بلکہ انتہاٸ کرخت لب و لہجے میں اسے بری طرح دھتکار رہاتھا۔ وہ منتیں کررہاتھا لیکن سیل مین نہیں مان رہا تھا، اسکے لہجے کی بےبسی مجھے کھٹک رہی تھی۔
میں آگے بڑھا، اس شخص کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گیا۔ قریب ہی پانی کا کولر رکھا تھا، اسے پانی پلایا اور پوچھا: “بھائی! سائیکل کیوں واپس کرنا چاہتے ہو؟”
بے بسی کا بوجھ شاید بہت دیر سے دبا ہوا تھا، ضبط نہ رہ سکا۔ اس نے رومال آنکھوں پر رکھ کر زار و قطار رونا شروع کردیا۔
کچھ دیر بعد بولا:
“مولوی صاحب! اصل میں بیوی کے چیک اپ کے لیے آیا تھا۔ بچے سے وعدہ تھا کہ سرگودھا جاؤں گا تو سائیکل ضرور دلاؤں گا۔ آج خرید بھی لی۔ مگر ہسپتال پہنچا تو بیوی کے ٹیسٹ اکیس ہزار کے نکلے۔ میرے پاس صرف اٹھارہ ہزار ہیں۔ تیس ہزار قرض لے کر آیا تھا، اگر سائیکل واپس نہ ہوئی تو بیوی کے علاج کے پیسے بھی نہیں بچیں گے۔”
میں نے اسے حوصلہ دیا اور دوکان کے اصل مالک کےپاس گیا۔ جانے سے پہلے درود شریف کا ہدیہ انہیں کردیا تھا۔
سلام کیا تو وہ مسکرا کر بولے: “جی مولانا! بس آپ کی سائیکل تیار ہو رہی ہے، ادھر پنکھے کے سامنے بیٹھ جائیں۔”
میں قریب ہوکر آہستہ سے بولا:
“محترم! جنت برائے فروخت ہے، خریدنا چاہیں گے؟”
وہ چونک کر بولے: “مولانا! کچھ سمجھا نہیں۔”
میں نے کہا:
“بزرگوں سے ایک واقعہ سنا ہے۔ ایک شخص نے دکان بنائی۔ کچھ دن تک کاروبار کرتے رہے۔ ایک دن ایک گاہک خریدا ہوا سامان واپس لے آیا۔ انہوں نے خوشی خوشی سامان واپس لیا اور رقم لوٹائی۔ پھر دکان بند کرنے لگے۔
لوگوں نے پوچھا: کیوں؟
انہوں نے نظریں جھکا کر کہا:
میں نے رسول اللہ ﷺ کا فرمان سنا تھا کہ: “جو شخص کسی مسلمان کا سودا واپس کر دے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی لغزش معاف فرما دے گا۔”
میں نے دکان اسی نیت سے کھولی تھی۔ آج وہ موقع مل گیا، اب دکان کی ضرورت نہیں۔”
محترم یہی موقع آج آپکے پاس ہے، اس شخص سے ساٸیکل واپس لے لیجیے اور جنت خرید لیجیے۔ اور یہ بھی جان لیں کہ اس بچارے کی بیوی بیمار ہے، اسکے ٹیسٹوں کیلیے پیسے کم پڑگٸے تھے،، تبھی وہ بیچارہ آپکے پاس آیا ہے، کچھ ترس کھاٸیے اس مجبور پر“
یہ سن کر دکاندار کے چہرے پر پسینہ آگیا۔ گھبرا کر بولے: “کیا واقعی بیوی بیمار ہے؟”
میں نے ہاں میں سر ہلایا تو انہوں نے دراز کھولی، پندرہ ہزار نکال کر مجھے دیے اور کہا:
“مولانا! میں بہت شرمندہ ہوں۔ کاش پہلے پتہ چلتا کہ وہ اتنا مجبور ہے۔ میری بیوی فوت ہوۓ سات ماہ ہوگٸے، بیوی کتنی بڑی نعمت ہے، چند دنوں میں ہی جان گیا ہوں،اللہ تعالیٰ ساتھ کبھی کسی کا نہ توڑے، یہ گیارہ ہزار سائیکل کے اور باقی میری طرف سے۔ آپ اسے دے دیجیے۔”
میں نے سائیکل واپس کروائی، اپنی طرف سے بھی کچھ رقم ملائی اور اس شخص کو جاکر رقم دے دی۔ وہ شخص آنسو بھری آنکھوں سے دعائیں دینے لگا۔ بڑی مشکل سے اسے رخصت کیا اور پھر دکان پر لوٹ آیا۔
احبابِ گرامی!
جنت کمانے کے مواقع ہمارے اردگرد بکھرے ہوئے ہیں، مگر ہم اکثر ان پر توجہ نہیں دیتے۔ خصوصاً کاروباری حضرات کے پاس ایسے مواقع زیادہ ہوتے ہیں۔ خوش اخلاقی، نرمی، اور گاہک کی خوشی کے لیے خریدا ہوا مال واپس کر دینا، یہ معمولی بات نہیں۔ بلکہ یہ جنت کمانے کا ذریعہ ہے۔
آئیے! ایسے مواقع کی تلاش میں رہیں، خود بھی فائدہ اٹھائیں اور دوسروں کو بھی اس کی نصیحت کریں۔
عثمان غنی رانا
#آج_کی_بات
26 اگست 2025
…کاپیڈ…
#k4kasim