Daily Roshni News

قرآنی انسائیکلو پیڈیا

قرآنی انسائیکلو پیڈیا

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )قر آن پاک رشد و ہدایت کا ایسا سر چشمہ ہے جو ابد تک ہر دور اور ہر زمانے میں انسان کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ یہ ایک مکمل دستور حیات اور ضابطہ زندگی ہے۔ متر آنی تعلیمات انسان کی انفرادی زندگی کو بھی صراط مستقیم دکھاتی ہیں اور معاشرے کو اجتماعی زندگی کے لیے رہنما اصول سے بھی واقف کراتی ہیں۔

التُّرْفَةُ:عربی زبان میں لفظ تر فہ عش و عشرت میں فراخی اور وسعت کو کہتے ہیں۔ ترف کہتے ہیں خوشحال ہونے اور آسائش سے زندگی بسر کرنے کو، To Live in

Luxury Ease & Comfort اور ترفه خوشحالی کے باعث سرکش اور مغرور ہونے کو کہتے ہیں اور المترف کہتے ہیں ایسے شخص کو جو مغرور و متکبر Proud ہو اور دوسروں کو حقیر جانے Disdain اور جو خوشحالی میں پلا بڑھا ہو ، جو چاہے کرے اور کوئی اسے روکنے والا نہ ہو۔ عربی میں کہا جاتا ہے کہ اترف فلان فهو مُترف یعنی وہ آسودہ حالی اور کثرت دولت کی وجہ سے بد مست ہے۔ (المفردات القرآن)

لسان العرب کے مصنف لکھتے ہیں کہ ”الترف“ کا معنی ہے صاحب نعمت ہونا اور ”الترفہ“ کا معنی ہے خود نعمت اور ”مترف“ اسے کہتے ہیں جو فراوان نعمتوں اور آسائشوں سے بہرہ مند ہو اس طرح کہ غرور کرنے لگے یا اس طرح ناز و نعمت میں ہو کہ اسے کوئی روک نہ سکے اور جو اس کا دل چاہے کرے۔ (لسان العرب) قرآن میں یہ لفظ اتر فَنَاهُمْ ، أَتْرِفْتُمْ ، أَتْرِفُوا ، مُتَرَفُوهَا، مُتْرَفِينَ، مُتْرَفِيهَا اور مُتْرَفِيهِمْ کی مختلف صورت میں گل 8 مرتبہ آیا ہے، تقریباً تمام مقامات پر یہ لفظ ایسے آسودہ حال اور کثرت دولت سے بدمست اور مغرور لوگوں کے بیان میں استعمال ہوا ہے ، جو نا صرف خود اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہوئے بلکہ ان کی دیکھا دیکھی اور ان کی تقلید میں، ان کی قوم بھی گناہوں میں ڈوب گئی۔ اللہ تعالی قرآن میں فرماتا ہے: ترجمہ: ”جو امتیں تم سے پہلے گزر چکی ہیں ان میں ایسے ہوش مند کیوں نہ ہوئے جو ملک میں خرابی کرنے سے روکتے ؟ … ہاں (ایسے) تھوڑے سے (تھے) جن کو ہم نے ان میں سے مخلصی بخشی۔ اور جو ظالم تھے وہ انہی باتوں کے پیچھے لگے رہے جن میں عیش و آرام (اتر فوا) تھا اور وہ گناہوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔” سورہ ہود (11) آیت: 116]

یعنی اللہ نے جس بستی میں کوئی نبی اور رسول بھیجا وہاں کے جاہ و حشمت شان و شوکت والے رئیسوں، امیروں، سر داروں اور بڑے لوگوں نے جھٹ اپنے کفر کا اعلان کر دیا۔

ترجمہ: ”اور ہم نے کسی بستی میں کوئی ڈرانے والا نہیں بھیجا مگر وہاں کے خوشحال لوگوں (مُتَرَفُوهَا ) نے کہا کہ جو چیز دے کر تم بھیجے گئے ہو ہم اس کے قائل نہیں۔ اور (یہ بھی) کہنے لگے کہ ہم بہت سامال اور اولاد رکھتے ہیں اور ہم کو عذاب نہیں ہوگا “۔ [ سورۂ حج (22) آیت : 5]

ترجمہ : ” اور انہی میں سے ان میں ایک پیغمبر بھیجا (جس نے ان سے کہا) کہ اللہ ہی کی عبادت کرو (کہ) اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں تو کیا تم ڈرتے نہیں ؟ تو ان کی قوم کے سردار جو کافر تھے اور آخرت کی تکذیب کرتے تھے اور دنیا کی زندگی میں ہم نے ان کو آسودگی (وَاتَّرَ فَنَاهُمْ ) دے رکھی تھی کہنے لگے کہ یہ تو تم ہی جیسا آدمی ہے جس قسم کا کھانا تم کھاتے ہو اس طرح کا یہ بھی کھاتا ہے اور (پانی) جو تم پیتے ہو اسی قسم کا یہ بھی پیتا ہے۔” [ سوره مومنون (23) آیت: 31-32] ترجمہ: ” یہاں تک کہ جب ہم ان میں سے آسودہ حال (مُتْرَفِيهِمْ ) لوگوں کو پکڑ لیا تو وہ اس وقت چلائیں گے۔ آج مت چلاؤ! تم کو ہم سے کچھ مدد نہیں ملے گی۔”سوره مومنون (23) آیت : 63-64]

ترجمہ: اور جب ہمارا ارادہ کسی بستی کے ہلاک کرنے کا ہوا تو وہاں کے آسودہ لوگوں (مُتْرَفِيهَا) کو ( فواحش) پر مامور کر دیا، تو وہ نافرمانیاں کرتے رہے، پھر اس پر (عذاب کا)

حکم ثابت ہو گیا اور ہم نے اسے ہلاک کر ڈالا۔” [سورہ مومنون (23) آیت : 35] ان آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر بستی میں وہاں کے بڑے لوگ اپنی قوم کے جرائم اور گناہوں کے ذمہ دار ہوتے ہیں جب کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے سر کش لوگوں کو کچھ احکام دیتے ہیں وہ نہیں مانتے پھر ہم انہیں ہلاک کر دیتے ہیں۔ چنانچہ حدیث نبوی ہے کہ: اذا ساد القبيل فاسقهم وكان زعيم القوم ارذلهم وأكرم الرجل اتقاء شره فلينتظر وا البلاء جب قبیلے کی سرداری فاستوں کے ہاتھوں میں آجائے گی ذلیل شخص قوم کا رہبر بن جائے گا اور کسی شخص کی تعظیم اس کے شر اور فتنہ کے ڈر سے کی جانے لگے تو لوگوں کو بلا نازل ہونے کا انتظار کرنا چاہئے۔ (ترمذی؛ مشکوۃ)

بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ مارچ 2016

Loading