Daily Roshni News

ذات کا محاسبہ۔۔۔ تحریر۔۔۔بانو قدسیہ۔۔۔قسط نمبر3

ذات کا محاسبہ

تحریر۔۔۔بانو قدسیہ

قسط نمبر3

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ ذات کا محاسبہ۔۔۔ تحریر۔۔۔بانو قدسیہ)

 اب بات کچھ کچھ اس کی سمجھ میں آنے لگی۔’’آراء۔۔۔ دیکھو میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔۔۔ یہ بہتر ہے کہ اب میں تمہیں چھوٹا سازخم دوں بہ نسبت اس کے کہ بعد میں تمہیں ساری عمر تکلیف دیتا رہوں۔۔۔ ابھی میں Settle ہونا نہیں چاہتا۔ میں ابھی طے نہیں کر سکا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں۔ کدھر اور کس کے ساتھ جانا چاہتا ہوں۔‘‘ آراء یقیناً ایک ماڈرن لڑکی تھی لیکن ماڈرن لڑکیوں کے بھی کئی گریڈ ہوتے ہیں اور اس کا گریڈ چپراسیوں کا سا تھا جو انکار سن کر زیادہ اصرار نہیں کر سکتے۔ وہ اٹھی۔۔۔ اور دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔ پھر اس نے دو قدم ذی شان کی جانب بڑھائے اور کہا، ’’ذی شان تمہاری Activities زیادہ ہیں۔ اتنے مشاغل ہوں تو آدمی بٹا رہتا ہے۔ کبھی کبھی خالی بیٹھ کر اپنے ساتھ بھی وقت گزارا کرو۔۔۔ کافی دھند چھٹ جاتی ہے اور دور تک نظر آنے لگتا ہے۔۔۔ پھر فیصلے اپنے بھی ہوتے ہیں اور آسان بھی۔۔۔‘‘

ذی شان نے آراء کی بات پر کوئی توجہ نہ دی کیونکہ اسے معلوم تھا کہ آراء زیادہ تر باتیں نامور ادیبوں کے اقتباسات یاد کر کے کرتی ہے۔ آراء اس کی زندگی سے نکل گئی۔ غالباً وہ کبھی آئی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد اس کی شادی ہو گئی اور شادی کے بعد مشاغل میں اور اضافہ ہو گیا۔ اس کی بیوی ایک کھاتے پیتے گھرانے کی خود ساختہ لاڈلی تھی۔ وہ بھی ایک متمول خاندان کا پڑھا لکھا خوبصورت فرد تھا۔ کبھی سسر کی گاڑی، کبھی باپ کی کار، کبھی اپنی کبھی بیوی عاتکہ کی گاڑی میں کئی جگہوں پر جانا پڑتا۔ کہیں کام، کہیں تفریح۔۔۔ لیکن مل جل آناجانا سمیٹنا پھیلانا اس قدر تھاکہ فرصت کے لمحات سکڑتے گئے اور وہ اپنے آپ سے کبھی نہ مل سکا۔

ایک بات طے پا گئی کی پاکستان میں رہ کر خاطر خواہ ترقی نہیں ہو سکتی۔ یہاں وسائل اور مواقع کی بہت کمی ہے۔ یہ نہیں کہ ذی شان کو مالی طور پر کسی ترقی کی ضرورت تھی لیکن زندگی جمود کا نام بھی تو نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں ذی شان اور عاتکہ کی زندگی ایک روٹین کا شکار ہو چکی تھی اور اتنے سارے مشاغل کی پیروی نے انہیں چڑچڑی بلی کی طرح ہرکھمبے کو نوچنا سکھا دیا تھا۔ جب بھی انہیں فرصت کا کچھ وقت ملتا، وہ ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طور کی شکایت ہی کرتے۔ کبھی تمام الجھنوں کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان میں ٹریفک ٹھیک نہیں۔ یہاں کا تعلیمی نظام پسماندہ ہے۔ تمام سسٹم کام نہیں کرتے۔ وقت بہت ضائع ہوتا ہے۔ پھر خاندان والے بے جا مداخلت کرتے ہیں۔ شخصی آزادی کا نام و نشان کہیں نہیں۔ دوست ریاکارمنافق ہیں۔۔۔ اصلی رشتوں کی پہچان گم ہو گئی ہے۔ نقلی رشتے بہت زیادہ ہیں۔۔۔!

دفتروں میں گپ بازی اور فائل سسٹم بہت زیادہ ہے۔ بیوروکریٹ کی سرداری ہے۔ ماں باپ مشفق کم ہیں، مطالباتی زیادہ ہیں۔ بہن بھائیوں کی اپنی اپنی دلچسپیاں ہیں۔ وہ اپنے اپنے مدار پر ہیں۔ غرض یہ کہ جب ذی شان اور عاتکہ کو پاکستان سے اور پاکستان میں بسنے والوں سے اتنی شکایات ہوگئیں کہ انہیں ان شکایات کا کوئی حل نہ مل سکا تو انہوں نے اپنی بے قراری کاحل صرف یہی سوچا کہ وہ لندن چلے جائیں اور وہاں قسمت آزمائیں۔ لندن جانے سے پہلے ایک روز پھوپھی جان سے ملن ے گیا۔ آراء ایک کند قینچی سے گلاب کا پھول کاٹ کر اپنی ٹوکری میں ڈال رہی تھی۔ وہ ذی شان سے ایسے ملی جیسے ان دونوں کے درمیان کبھی کچھ تھا ہی نہیں لیکن جب ذی شان چلنے لگا تو آراء کچھ چپ سی ہو گئی۔

’’واپس کب آؤگے؟‘‘

’’بس آتا جاتا رہوں گا۔‘‘

’’اچھا؟‘‘ آراء نے سوالیہ نظروں کے ساتھ پوچھا۔

’’بھئی آتا جاتا رہوں گا۔ یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ امی ابو سے تو ملنے آؤں گا ہی۔‘‘

’’کبھی کبھی اپنے آپ سے بھی مل لینا ذی شان۔۔۔ تنہائی میں۔۔۔ جو شخص اپنے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ کسی کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتا۔‘‘

ذی شان نے آراء کی طرف دیکھا۔ وہ جانتا تھا کہ آراء ایسی باتیں اقتباسات سے اخذ کرکے بولا کرتی تھی اس لیے اس نے جب آراء کو خدا حافظ کہا تو ساتھ ہی اس کی بات کو بھی بھلا دیا۔ اس کے بعد پورے بیس سال تک اس کی ملاقات اپنے آپ سے نہ ہو سکی۔ لندن کی زندگی میں مشاغل او ربھی گوناگوں ہو گئے۔ پاکستان میں مالی، باورچی، دھوبی، جمعدارنی ایسے بہت سے وافر لوگ موجود تھے جو اس کی گھریلو زندگی کو سہل بناتے تھے۔ لندن میں یہ گھریلو کام بھی ان دونوں پر آپڑے۔ عاتکہ اور وہ دونوں کام کرتے تھے۔ دونوں مل کر کھانا پکاتے تھے۔ دونوں مل کر صفائی کرتے تھے۔ دونوں مل کر بچے پالتے تھے۔ دونوں تمام چھٹیاں یورپ میں گزارتے تھے۔ چھٹیوں کا پروگرام بنانا۔۔۔ سستے ٹکٹوں کی تلاش۔۔۔ سستے ہوٹلوں کا سراغ۔۔۔ ان گنت مصروفیات تھیں۔ گھر سے کام۔۔۔ کام سے گھر۔۔۔ پھر گھر پر گھریلو کام!

اس کی زندگی مکمل طور پر اپنی ضروریات، اپنے پیشے کی ضروریات، اپنے خاندان کی کفالت کی نذر ہو گئی اور بیس سال بعد اسے پتہ چلا کہ وہ اندر سے بکھر چکا ہے۔۔۔ تب اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے دونوں بیٹوں کو لے کر واپس پاکستان چلا جائے گا۔

عاتکہ اس تبدیلی پر رضامند نہ تھی۔ وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی تھی۔ پاکستان میں اسے اپنے ہاتھ سے اپنے ذاتی کام کرنے کی بھی عادت نہ تھی۔ مغرب میں رہنا اس نے اس لیے پسند کیا تھا کہ یہاں ذی شان اس کا گھریلو ملازم تھا۔ وہی Groceries لاتا، کار چلاتا، تمام بل ادا کرتا، چونکہ ان کے فلیٹ میں لفٹ عموماً خراب رہتی تھی اس لیے تیسری منزل پر تمام بھاری سامان اٹھاکر لے جانا بھی ذی شان کی شاندار ڈیوٹی تھی۔ مغرب میں کھاتے پیتے گھرانوں کے ایسے لڑکوں کے لیے مشکل زندگی تھی جو عیاش نہ تھے۔ پاکستان میں کوٹھی، کار، ملازم تمام چیزیں مہیا تھیں اور ان کے لیے کوئی جدوجہد یا تگ و دو کرنا نہ پڑتی تھی۔

Loading