نظم: خضرِ راہ
کتاب: بانگِ درا، حصہ سوم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )قلزمِ ہستی سے تُو اُبھرا ہے مانندِ حباب
اس زیاں خانے میں تیرا امتحاں ہے زندگی
قُلزمِ ہستی: زندگی کا سمندر، کائنات | مانند حباب: بلبلے کی طرح | زیاں خانہ: نقصان کی جگہ مراد دنیا
یہ شعر انسانی وجود کی حقیقت اور مقصدِ حیات کو نہایت عمیق انداز میں بیان کرتا ہے۔ “قلزمِ ہستی” سے مراد کائنات کا وہ بے کنار سمندر ہے جس میں ہر شے ایک مظہر کے طور پر نمودار ہوتی ہے، اور انسان کو اس میں ایک “حباب” یعنی بلبلے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ بلبلہ اپنی کم مائیگی اور ناپائیداری کے باوجود سمندر کی وسعت سے جنم لیتا ہے، گویا انسان بھی اس کائناتی نظام کا حصہ ہے مگر اس کا وجود عارضی اور امتحان سے مشروط ہے۔ “زیاں خانہ” دنیا کو کہا گیا ہے جہاں فنا، نقصان اور وقت کی بے رحمی ہر شے کو گھیرے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود شاعر یہ حقیقت اجاگر کرتا ہے کہ زندگی کا اصل مفہوم محض باقی رہنا نہیں بلکہ امتحان اور آزمائش سے گزر کر اپنی حقیقت کو منوانا ہے۔ اس طرح اقبال انسان کو متوجہ کرتے ہیں کہ اپنی محدودیت کے باوجود اپنی خودی کو پہچانے اور اس امتحان گاہ میں سرخرو ہونے کی جستجو کرے۔
نظم: خضرِ راہ
کتاب: بانگِ درا، حصہ سوم