افسوس کہ کراچی کی ٹرانسپورٹ کبھی حکمرانوں کی ترجیح نہ بنی۔
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )انیسویں صدی کے آخر میں جب برطانوی دور میں کراچی تیزی سے ترقی کر رہا تھا، تب کراچی میں یہاں ٹرام وے سروس متعارف ہوئی۔
اس طرح 1885 میں کراچی نے برصغیر کے دیگر بڑے شہروں سے پہلے جدید ٹرانسپورٹ کے ایک نئے دور میں قدم رکھا۔ یہاں ٹرام وے کا آغاز ہوا جو ابتدا میں گھوڑوں کے ذریعے چلتی تھی، جسے “گھوڑا ٹرام” کہا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ گھوڑا گاڑی ٹرام کو ناکافی سمجھا گیا۔
1909 میں کمپنی نے اس نظام کو بجلی سے چلنے والی ٹرام میں بدلنے کا منصوبہ بنایا۔
1910 میں کراچی میں برقی ٹرام متعارف ہوئی، اور یہ اُس زمانے میں پورے برصغیر کے چند شہروں میں سے ایک تھی جہاں جدید برقی ٹرام سروس موجود تھی وقت کے ساتھ ساتھ اسٹیم انجن ٹرام گاڑیاں متعارف ہوئیں، جنہوں نے اس نظام کو مزید تیز اور قابل اعتماد بنا دیا۔ یہ سہولت نہ صرف عوام کو سستی اور آسان سواری فراہم کرتی تھی بلکہ شہر کی تجارتی اور سماجی سرگرمیوں کو بھی ایک دوسرے سے جوڑتی تھی۔ کراچی کا یہ نظام برصغیر میں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ تھا، جس نے بعد میں دہلی، بمبئی اور کلکتہ جیسے شہروں کو بھی متاثر کیا
برصغیر کے کئی شہروں میں مقامی سرمایہ کاروں نے ٹرام کمپنیاں قائم کیں۔ کراچی میں انگریزوں کی کراچی ٹراموے کمپنی کے ساتھ ساتھ ایک مقامی کمپنی بھی بنی جسے “محمد علی ٹراموے کمپنی” کہا جاتا تھا۔اس کمپنی کی بنیاد 20ویں صدی کے اوائل میں ایک کاروباری شخصیت محمد علی (مقامی سرمایہ کار) نے رکھی۔
یہ کمپنی زیادہ تر صدر، گارڈن اور کلفٹن کے علاقوں میں سروس دیتی تھی۔ بعض حوالوں میں اسے “محمد علی لوکل ٹراموے” کہا گیا ہے۔ بعد میں یہ کمپنی کراچی ٹراموے کمپنی میں مدغم ہو گئی یا اس کے تحت آ گئی۔
یہ۳۰ اپریل 1975ء کی ایک شام تھی جب کراچی کی سڑکوں سے ٹرام ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی۔ نوے برس تک یہ شہر کی نبض کی طرح چلتی رہی، صدر کی ایمپریس مارکیٹ سے لے کر ٹاور، برنس روڈ، گاندھی گارڈن اور سولجر بازار تک یہ لوہے کی پٹڑیوں پر دوڑتی رہی۔ کبھی یہ کینٹ اسٹیشن کے سامنے سے گزرتی، کبھی بندر روڈ (موجودہ ایم اے جناح روڈ) پر گھنٹیاں بجاتی، تو کبھی گارڈن اور رنچھوڑ لائن کی گلیوں میں لوگوں کو ان کی منزل تک پہنچاتی۔ لیکن 30 اپریل کو اچانک اعلان ہوا کہ اب ٹرام نہیں چلے گی—یوں ایک صدی کے قریب کی یادیں پہیوں کی چرچراہٹ اور بجلی کی کھڑکھڑاہٹ کے ساتھ دفن ہو گئیں۔
آج بھی جب بزرگ شہری کراچی کی گزرگاہوں اور پرانی سواریوں کی بات کرتے ہیں تو ان کی گفتگو میں “ٹرام” ضرور جھلکتی ہے۔ کوئی بتاتا ہے کہ بچپن میں والد کے ساتھ ایمپریس مارکیٹ سے ٹرام پر چڑھا تھا، تو کوئی یاد کرتا ہے کہ دوستوں کے ساتھ ٹاور سے صدر کا سفر کتنا دلچسپ ہوا کرتا تھا۔ سائیکل رکشا اور گھوڑا گاڑی کے بعد یہ ٹرام ہی تھی جو اس شہر کے باسیوں کو سہولت اور سکون کا احساس دیتی تھی۔
صدر کا یہ ٹرام جنکشن ایک طرح سے کراچی کی ٹراموں کا دل سمجھا جاتا تھا، جہاں سے شہر کے اہم حصوں تک ٹرامیں جایا کرتی تھیں۔ ایک طرف فرزند قلفی اور احمد مٹھائی کی دکانیں تھیں اور دوسری طرف پشاوری آئسکریم، اقبال بک ڈپو، بلدیہ ڈسپنسری اور پھولوں کے ٹھیئے۔ اس ماحول میں ٹرام کی گھنٹیوں کی ٹن ٹن اور گھوڑوں کے بجتے ٹاپوں (ابتدائی زمانے کی ٹرامیں گھوڑا گاڑی نما تھیں یا پھر بعد کی برقی ٹراموں کی جھنجھناہٹ ایک الگ ہی رنگ بھرتی تھی۔
چھ روٹس صدر جنکشن کی خاص پہچان تھے: ۱۔ صدر سے کینٹ اسٹیشن۔ ۲۔ صدر سے سولجر بازار نمبر
۳۔ صدر سے بولٹن مارکیٹ
۴۔ بولٹن مارکیٹ سے گاندھی گارڈن
۵۔ بولٹن مارکیٹ سے چاکیواڑہ
۶۔ بولٹن مارکیٹ سے کیماڑی
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سروس کو بند کرنا واقعی درست فیصلہ تھا؟ اگر تھوڑی سی بصیرت دکھائی جاتی تو کیا یہ ٹرام جدید کیبل کار یا شہری ریل کی صورت اختیار نہیں کر سکتی تھی؟ افسوس کہ کراچی کی ٹرانسپورٹ کبھی حکمرانوں کی ترجیح نہ بنی۔ یہ شہر اپنا سرمایہ دیتا رہا، لیکن بدلے میں اپنی ہی سڑکوں اور ڈھانچوں کو اجڑتا دیکھتا رہا۔ آج حال یہ ہے کہ کراچی کا انفراسٹرکچر ملبے کا منظر پیش کرتا ہے، اور اس کی رگوں سے اب بھی وسائل کا خون نچوڑا جا رہا ہے۔
آج جب پرانے کراچی کے لوگ ٹرام کو یاد کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں ایک زمانے کی سادگی اور خوشبو جھلکتی ہے۔ ٹرام نہ صرف ایک سفری سہولت تھی بلکہ شہر کی تہذیبی اور سماجی تاریخ کا قیمتی حصہ بھی تھی۔
ٹرام تو گزر گئی، مگر اس کی گھنٹی کی آواز آج بھی ایم اے جناح روڈ کی خاموشی میں سنائی دیتی ہے—شاید یہ شہر اب بھی اپنی کھوئی ہوئی پہچان کو آواز دے رہا ہے