کامیاب اور پُر اثر لوگوں کی 7 عادتیں
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ کامیاب اور پُر اثر لوگوں کی 7 عادتیں) جب آپ سائی نرجی پر مبنی تعلق قائم کرتے ہیں تو دوسرے معنوں میں آپ خود اپنے لیے نئے اظہار اور متبادل راہ کے مواقع پیدا کرتے ہیں۔
آپ اس یقین کے ساتھ کام شروع کرتے ہیں کہ دو فریقین میں زیادہ بصیرت پیدا ہوگی اور باہمی سیکھنے سے یہ بصیرت اور جذبہ مزید بصیرت، ہنرمندی اور ترقی کی طرف لے جائے گا۔
غیر موثر لوگ اپنی ساری زندگی غیر استعمال شدہ صلاحیتوں کے ساتھ گزار دیتے ہیں اور سائینرجی کا صحیح تجربہ انہیں کبھی زندگی میں ہو ہی نہیں پاتا۔ ہوتا ہے تو بس معمولی سا اور کبھی کبھار۔ مثلاً کسی کھیل میں جہاں انہیں کچھ عرصے کے لیے صحیح معنوں میں ٹیم اسپرٹ کا تجربہ ہوا ہو یا کبھی وہ ہنگامی صورتحال میں گھر گئے ہوں اور ان کے ساتھ لوگوں نے اعلیٰ تعاون کا مظاہرہ کیا ہو، یا پھر اپنی انا اور تکبر کو پس پشت ڈال کر انہوں نے کسی کی مدد کی ہو، جان بچائی ہو اور کسی کی مشکل کا حل نکالا ہو۔
تقریباً تمام تخلیقی کوششیں عموما غیر متوقع نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ اکثر یہ مشکوک لگتی ہیں، آر یا پار کی کیفیت، جیسے کسی بات کا تُکّا لگانا کہ کبھی لگ گیا کبھی نہ لگا۔ جب تک لوگوں میں اس غیریقینی کیفیت برداشت کرنے کا حوصلہ نہ ہو اور وہ اپنے تحفظ کا احساس اپنی اندرونی اقدار اور اصولوں سے حاصل نہ کرتے ہوں، انہیں تخلیقی کوششیں بہت خوفزدہ اور ناخوش کردیتی ہیں۔
عام طور پر شروع میں ایک لمحہ ایسا ہوتا ہے جس کے لیے بڑی ہمت درکار ہوتی ہے۔ جب آپ یہ عمل شروع کرتے ہیں تو پھر دوسرے بھی اعتماد اور ایمانداری کے ساتھ کھلنے لگتے ہیں اور پھر سائی نرجی (اتحادِ عمل/ تخلیقی تعاون) کا پروسس شروع ہوجاتا ہے ا ور زیادہ سے زیادہ تخلیقی صورت اختیار کرتا چلا جاتا ہے ۔ اس کا انجام ایسی بصیرت اور منصوبوں کی صورت میں ہوتا ہے کہ جس کا ابتداء میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
سائی نرجی کے اس عمل میں ایک وقت ایسا آتا ہےجب لوگوں کے درمیان ابلاغ کے لیے الفاظ کی اہمیت نہیں رہتی وہ ایک دوسرے کا مطلب بغیر کہے فوراً سمجھ لیتے ہیں۔ اس مرحلے کے بعد بصیرت کی نئی دنیائیں جنم لیتی ہیں، نئے تناظرPerspective سامنے آتے ہیں، نئی انقلابی فکر Paradigm اپنے اندر نئے امکانات لے کر آتی ہے اور پھر نئے متبادلاتکھلتےہیں ۔
سائی نرجی ولولہ انگیزی، تحریک اور جوش پیدا کرتی ہے۔
مندرجہ ذیل ڈایاگرام وضاحت کرتا ہے کہ باہمی روابط کے مختلف درجات میں قریبی اعتماد کس طرح ہم ربط ہوتا ہے۔
اگر تعاون اور اعتماد نہ ہو تو رابطہ بھی انتہائی نچلے درجے کا ہوتا ہے۔ اس طرح کے روابط میں دفاعی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ اپنے تحفظ کی کوشش کی جاتی ہے اور اکثر قانونی زبان استعمال کی جاتی ہے تاکہ اپنا پلا بھاری رکھا جاسکے اور اگر حالات ناگوار ہوجائیں تو آسانی سے بچایا جاسکے۔ اس طرح کے ابلاغ صرف جیت/ہار اور یا ہار ہار یعنی اپنی جیت کے لیے دوسروں کی ، یا پھر اگر میری ہار ہوتو دوسرا بھی نہ جیتے جیسی سوچ ہی پیدا ۛۛۛکرتی ہے ۔ یہ بالکل موثر نہیں ہوتا، اس میں P/PC توازن بالکل نہیں ہوتا اور یہ انسان کو مزید دفاعی اور خود غرضی پر مبنی رویے کی طرف لے جاتا ہے۔
درمیانی درجے پر محض تعظیمی روابط ہوتے ہیں۔ اس سطح پر کافی حد تک بالغ نظر لوگ آپس میں رابطہ کرتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا احترام تو کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ شعوری طور پر کسی ناموافق صورتحال سے بچنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں، لہٰذا ان کا تعلق مہذبانہ تو ہوتا ہے لیکن اس میں ایک دوسرے کے احساس کو نہیں سمجھا جاتا۔ یہ لوگ طاہری سطح پر تو ایک دوسرے کو سمجھتے ہیں لیکن یہ گہرائی کے ساتھ ایک دوسرے کے زاویہ نظر اور نظریات کو پرکھنے کی کوشش نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان کے تعلقات میں نئے مواقع پیدا نہیں ہوتے۔
ا س طرح کا ابلاغ زیادہ تر ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جو اپنی اپنی جگہ خودمختار ہوں، بعض اوقات یہ ایک دوسرے پر انحصار پر یقین رکھنے والے لوگوں کے درمیان بھی ہوتا ہے لیکن اس میں تخلیقی ممکنات کی کھڑکیاں نہیں کھلتیں، زیادہ تر سمجھوتہ ہی ہوتا ہے۔ سمجھوتے کا مطلب ایک جمع ایک برابر ہے ڈیڑھ 1+1=1.5 ، یعنی دونوں فریقین کچھ کھوتے ہیں اور کچھ پاتے ہیں۔
تعلق کا اعلٰی درجہ سائی نرجی ہے ، جس کا مطلب ایک جمع ایک دو، گیارہ اور گیارہ ہزار کے برابر بھی ہوسکتا ہے۔ اعلیٰ درجہ کے اعتماد اور تعاون پر مبنی یہ تعلق ایسے حل پیش کرتا ہے کہ جو پہلے تمام پیش کیے گئے نتائج کی نسبت بہتر ہوتے ہیں ۔ یہ اعتماد و تعاون تخلیقی مواقع فراہم کرتے ہیں۔ اس طرح ایک منفرد قسم کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے جو سب کو مطمئن کرسکتا ہے، جیت جیت یعنی سب کی جیت۔ چاہے یہ مختصر ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی اس میں P/PC توازن قائم رہتا ہے۔
اس بات کا بہتر اندازہ لگانے کے لیے کہ ہمارے باہمی روابط کے درجات ہمارے باہمی انحصار کو کس طرح مزید پر اثر بناتے ہیں، مندرجہ ذیل واقعہ دیکھیں:
چھٹیاں شروع ہونے والی ہیں اور شوہر اپنی فیملی کو لے کر کسی خوشگوار مقام پر سیر و تفریح کے لیے جانا چاہتا ہے لیکن اس کی بیوی ان چھٹیوں میں اپنی بیمار ماں کے پاس جاکر اس کی تیمارداری کرنا چاہتی ہے۔ یہاں میاں بیوی کے درمیان اختلافات ایک انتہائی بڑے منفی تجربے کی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ اس اختلاف رائے کا نتیجہ کسی نہ کسی سمجھوتے کی صورت میں ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ علیحدہ علیحدہ اپنی ترجیحات پر عمل کریں۔ خاوند بچوں کو لے کر سیر و تفریح کے لیے چلا جائے اور بیوی اپنی ماں کے پاس چلی جائے اور وہ دونوں اپنے فیصلے پر راضی خوشی بھی ہوں، لیکن ساتھ ساتھ دونوں کو احساس جرم بھی ہوگا۔ بچوں کو بھی اس چیز کا احساس ہوگا اور شاید وہ اپنی چھٹیوں سے لطف اندوز نہ ہوسکیں۔
ہوسکتا ہے کہ شوہر بیوی کی بات مان لے اور سیر تفریح کے بجائے بچوں کے ساتھ بیوی کی ماں کے پاس پہنچ جائے لیکن اسے بچوں کی چھٹیاں خراب ہونے کا ملال رہے گا۔ اگر بیوی اپنے شوہر کی بات مان لے لیکن وہ مستقل اپنی ماں کے بارے ہی میں پریشان رہےگی۔ آخرکار وہ جس بھی سمجھوتے پر پہنچیں گے ، آنے والے کئی سالوں تک اس کاذکر ہوتا رہے گا اور ایک دوسرے کی بے حسی، نظر اندازی اور غلط فیصلہ کا رونا رویا جائے گا۔ بات بات پر جھگڑے کی بنیاد بنا رہے گا۔
یہ اختلاف رائے میاں اور بیوی میں کشیدگی پیدا کرسکتا ہے اور ان کے تعلقات میں مسائل پیدا کرسکتا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے یہی صورتحال انہیں ایک دوسرے کے اور قریب لانے کا باعث بھی بن جائے اور تعلقات کی ایک مزید اعلیٰ سطح مہیاہوسکے۔
اگر انہوں نے اپنے اندر باہمی انحصار کی پر اثر عادات پیدا کر رکھی ہیں تو پھر وہ اپنے اختلافات کو بالکل ایک نئے زاویہ نظر سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔
چونکہ ان کے جذباتی اکاؤنٹ میں بڑی رقمیں جمع ہیں لہٰذا ان کے درمیان بہت زیادہ بھروسہ اور اعتماد ہے اور واضح ابلاغ ہے چونکہ وہ جیت/جیت میں سوچتے ہیں لہٰذا ان کا تیسرے متبادل میں یقین ہے۔ ایک ایسا متبادل جو دونوں کے لیے فائدہ مند ہو اور اس حل سے بہتر ہو جو ان دونوں نے علیحدہ علیحدہ تجویز کیے تھے۔ چونکہ وہ ایک دوسرے کو احساس اور توجہ کےساتھ سنتے ہیں اور پہلے دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا ان کے درمیان ان کی اقدار اور ترجیحات کی جامع تصویر قائم رہتی ہے اور انہیں بہتر فیصلہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ ان سب کا مجموعہ یعنی بھرا ہوا جذباتی اکاؤنٹ، جیت جیت کی سوچ، اور پہلے دوسرے کو سمجھنے کی کوشش، سائی نرجی کے لیے ایک آئیڈیل صورتحال پیدا کردیتا ہے۔
اسے ‘‘درمیانی راہ’’ کہتے ہیں۔ یہاں ‘‘درمیانی راہ ’’ کا مطلب سمجھوتہ نہیں ہے، اس کا مطلب ہے اعلیٰ، جیسے کہ تکون کا اوپر والا زاویہ۔
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ اکتوبر 2017