۔۔۔۔۔ ہم لا جواب رہ گئے ۔۔۔۔۔
انتخاب ۔۔۔۔۔ میاں عمران
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل۔۔۔ ہم لا جواب رہ گئے ۔۔۔ انتخاب ۔۔۔۔ میاں عمران)جب ہم چھوٹے تھے تو ہمیں یہ اصول معلوم نہیں تھا کہ الف پر ختم ہونے والے مذکر کو مؤنث بنانے کے لیے اس کی آخری ”الف“ کو چھوٹی ”ی“ میں بدل دیتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود ہم مرغا–مرغی، بکرا–بکری، گدھا–گدھی یا گھوڑا–گھوڑی کے معاملے میں کبھی غلطی نہیں کرتے تھے۔
البتہ جب بات چڑا–چڑی اور کتا–کُتی تک پہنچتی تو استاد کا غضبناک چہرہ دیکھنا پڑتا۔
تذکیر و تانیث کے وہ معصوم سے اصول، جو ہم نے لاشعوری طور پر اپنا رکھے تھے، دھواں بن کر اُڑ جاتے۔
کوئی ہمیں یہ منطقی جواب نہیں دیتا تھا کہ چڑی کو چڑیا اور کُتی کو کُتیا کہنا کیوں ضروری ہے۔
ذرا بڑے ہوئے تو معلوم ہوا کہ تذکیر و تانیث کی دنیا تو ایک پوری اندھیر نگری ہے۔
جہاں نر اور مادہ کے اصولوں کی کھُلی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں۔
مثلاً کوّا، اُلو، ہُدہُد، خرگوش، لنگور، گِدھ، کچھوا اور مچھر…
اِن بے چاروں کی مؤنث شکل تو موجود ہی نہیں!
دل میں بار بار خیال آتا کہ مسٹر خرگوش کے گھر میں کوئی مسز خرگوش بھی تو ہوگی؟
لنگور کی بیوی، گدھ کی ماں، کچھوے کی بہن… کیا یہ سب ہستیاں وجود نہیں رکھتیں؟
بلاشبہ رکھتی ہیں تو پھر اُن کے لیے الگ سے الفاظ کیوں نہیں؟
اس ناانصافی پر ایک بار ہم نے گڑگڑا کر استاد سے سوال کیا۔
وہ غصے سے لال ہو گئے اور بولے،
“ناانصافی تو دونوں طرف سے ہے! مچھلی کے شوہر کا نام سنا ہے کبھی؟ وہ بھی تو موجود ہے!”
ہم لاجواب رہ گئے۔
استاد جی نے پوری فہرست گنوا دی،
“فاختہ، مینا، چیل، مُرغابی، ابابیل، مکھی، چھپکلی…”
پھر الٹا سوال داغ دیا،
“بتاؤ، کیا ان سب کے باپ بھائی وجود نہیں رکھتے؟”
اور آج تک ہم اسی سوال کا جواب تلاش کر رہے ہیں۔
کوئی اہلِ علم رہنمائی فرما دیں۔