سوشل میڈیا اسٹارز اور عورت کا روپ
تحریر۔۔۔حمیراعلیم
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ سوشل میڈیا اسٹارز اور عورت کا روپ۔۔۔ تحریر۔۔۔حمیراعلیم) اکیسویں صدی ڈیجیٹل میڈیا کا دور ہے۔مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، ٹک ٹاک، یوٹیوب، انسٹا گرام وغیرہ نے ہر اس شخص کو ایکٹر اور بعض کو اسٹار بنا دیا ہے جس کے پاس ایک اچھا موبائل ہے۔ ہر شخص بزعم خود کونٹینٹ کرئیٹر بن چکا ہے۔یہ الگ بات ہے کہ دنیا بھر کے لوگ کوئی مثبت کونٹینٹ پیش کرتے ہیں جس سے دوسرے نہ صرف محظوظ ہوں بلکہ مستفید بھی ہوں۔ جب کہ ہمارے ہاں تعلیمی کی کمی کے باعث صرف گالم گلوچ، ناچ گانے ، بے حیائی پر مبنی مواد بنایا جاتا ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اسے پسند بھی کیا جاتا ہے ۔کیونکہ بنانے والوں کو مقصد صرف شہرت اور پیسہ حاصل کرنا ہے جب کہ دیکھنے والوں کو سستی تفریح چاہیے ہوتی ہے۔
میں کسی بھی سوشل میڈیا اسٹار کو فالو نہیں کرتی نہ ہی انکی ویڈیوز دیکھتی ہوں۔لیکن فیس بک اسکرول کرتے ہوئے اکثر کی شیئرڈ ویڈیوز دکھائی دے جاتی ہیں۔جن میں اکثر لڑکے ، کچھ کی داڑھی بھی ہوتی ہے، لڑکیوں کا روپ دھار کر دوپٹے، وِگز، میک اپ اور مخصوص اداؤں کے ساتھ ویڈیوز بناتے ہیں۔کیا ایسا کرنا محض تفریح ہے یا دین و اخلاقیات کے خلاف عمل؟ کیا عورت بنے بغیر ویڈیوز کامیاب نہیں بن سکتیں؟کیا نوجوانوں کے پاس مفید اور معلوماتی مواد کا فقدان ہے؟
یہ سوالات محض ذاتی رویوں تک محدود نہیں بلکہ دین، تہذیب، اور معاشرتی اقدار کے تناظر میں بھی اہمیت رکھتے ہیں۔
اسلام میں مخالف جنس کی مشابہت سختی سے منع کی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ نے ان مردوں پر لعنت فرمائی ہے جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر بھی جو مردوں کی مشابہت کرتی ہیں۔”بخاری 5885
یہاں مشابہت سے مراد صرف ظاہری حلیہ بول چال ہی نہیں بلکہ نقالی بھی شامل ہے۔اگر کوئی مرد یا عورت جنس مخالف جیسا لباس پہن کر ان کی نقل اتارتے ہیں تو وہ محض تفریح کے لیے ایسا نہیں کر رہے بلکہ اللہ رسول کی نافرمانی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔افسوس کہ آج سینکڑوں لوگ مزاح کے نام پر ریلیز اور ٹک ٹاک ویڈیوز بنا رہے ہیں جن کے فالورز کی تعداد ملینز میں ہے۔
کیا شہرت پانے کے لیے حیا اور حدود کو پامال کرنا ضروری ہے؟ ایسی ویڈیوز صرف دین کے خلاف ہی نہیں بلکہ معاشرتی اور نفسیاتی بگاڑ کا باعث بھی ہیں۔مرد جب عورتوں کا روپ دھار کر نرم لہجہ، زنانہ حرکات اور مصنوعی جذبات ظاہر کرتا ہے تو یہ صرف اس کی اپنی حیاء کو مجروح نہیں کرتا بلکہ دیکھنے والوں کی اخلاقی حساسیت بھی ماند پڑ جاتی ہے۔ بار بار مخالف جنس کی نقالی کرنے سے بعض نوجوانوں میں gender identity confusion پیدا ہو سکتی ہے۔ جو آگے چل کر ذہنی مسائل یا غیر فطری رجحانات میں بدل جاتے ہیں ۔ جب تعلیمی اداروں کے طلبہ ایسے کونٹینٹ بنائیں تو یہ پورے تعلیمی نظام اور معاشرتی ساخت پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔
اگر کوئی ان کونٹینٹ کرئیٹرز یا ان کے فالورز کو سمجھانے کی کوشش کرے توالٹا اسے ہی یہ کہہ کر شیم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے:”چل کرو! یہ سب مذاق ہے۔سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔”
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر تفریح کے نام پر نافرمانی خالق کائنات ہو رہی ہو تو کیا یہ صرف ایک معصوم سا عمل ہے؟ایک مسلمان کی زندگی کا ہر کام شریعت کی حدود میں رہ کر ہوتا ہے۔کامیڈی کا مطلب یہ نہیں کہ شریعت، اخلاق، یا صنفی شناخت کو مذاق بنا لیا جائے۔حدیث تو مذاق میں جھوٹ بولنے سے بھی منع کرتی ہے۔
کونٹینٹ بنانے والے خود بھی جانتے ہیں کہ عورت بننے سے ویڈیو وائرل ہوگی، لوگ ہنسیں گے، اور فالوورز بڑھیں گے۔مگر کیا نوجوان صرف “لائکس” کے لیے اپنی شناخت اور دین کو قربان کر دیں گے؟کیا عورت کا روپ دھارے بغیر شہرت نہیں مل سکتی؟جواب بہت آسان ہے۔ بالکل مل سکتی ہے۔ بلکہ زیادہ باوقار، مستقل اور دیرپا کامیاب ویڈیوز وہی ہوتی ہیں جو سنجیدگی، علم یا اصل ہنر پر مبنی ہوں۔
کئی یوٹیوبرز اور ٹک ٹاکرز نے تعلیم، دینی معلومات، ادب، مزاحیہ خاکے، اور معاشرتی اصلاح پر مبنی ویڈیوز بنائیں اور لاکھوں فالوورز حاصل کیے۔کچھ نوجوانوں نے سائنس کے تجربات، کتابوں کے خلاصے، اسلامک شارٹس یا موٹیویشنل باتوں پر کام کیا اور ان کی ویڈیوز کا معیار بھی بلند رہا اور نفع بھی ملا۔یہاں تک کہ کامیڈی بھی اگر باوقار، صاف اور ذہانت پر مبنی ہوتو لوگ اسے زیادہ دیر تک یاد رکھتے ہیں۔جیسے کہ عون علی کامواد ہے۔
تو جب مثبت اور تعمیری راستے موجود ہیں تو عورت بن کر مصنوعی انداز میں دین اور فطرت کے خلاف جا کر ویوز لینے کی کیا ضرورت ہے؟اس لیے کونٹینٹ وہ بنائیں جس سے دوسروں کو تفریح کے ساتھ مثبت پیغام بھی ملے۔رول ماڈل بننا ہی ہے تو ایسے بنیں کہ آپ کے جانے کے بعد آپ کے عزیز و اقارب کو آپ کی ویڈیوز انٹرنیٹ سے ہٹانے کی درخواست نہ کرنی پڑے۔عورت کا روپ دھار کر اس کی تذلیل نہ کریں وہ چھپانے اور عزت کرنے کے لیے ہے تفریح طبع کے لیے نہیں ۔
اصل کامیابی یہ نہیں کہ آپ وائرل ہو جائیں بلکہ کامیابی یہ ہے کہ آپ لوگوں کے دل و دماغ پر مثبت طریقے سے اثر انداز ہوں ان کے طرز زندگی کو تبدیل کر دیں۔حیا صرف عورت پر فرض نہیں بلکہ مرد کے لیے بھی اتنی ہی فرض ہے۔دونوں کو اللہ نے مختلف صورت پر تخلیق کیا ہے تو اس کی تخلیق کو بدل کر شیطان کے بندے نہ بنیں کیونکہ اس نے جنت سے نکالے جانے پر چیلنج کیا تھا کہ وہ انسانوں کو تخلیق الہی بدلنے پر آمادہ کرے گا۔اور اللہ نے فرمایا تھا میرے بندے تیرے فریب میں نہیں آئیں گے۔اپنے ہر عمل کو کرنے سے پہلے آخرت کو ذہن میں رکھیے۔ہر کام خودبخود درست ہوتا جائے گا۔