حق الیقین
قسط نمبر2
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ حق الیقین)تعلق کا قیام ہے۔ روحانی تقاضوں کی تکمیل کے ابتدائی مراحل میں خود آگہی، خود شناسی، تربیت و تہذیب جیسے امور شامل ہیں۔
روحانی تقاضوں کی تکمیل کے ذریعہ انسان اس نظر سے واقف ہو تا ہے جن سے ظاہر و باطن میں اس کائنات کو بنانے والے، کائنات کے مالک اللہ کی نشانیاں نظر آتی ہیں۔
ہم عنقریب انہیں آفاق اور انفس میں (یعنی خود ان کی ذات میں بھی ) نشانیاں دکھائیں گے۔ (سورہ حم السجدہ) روحانی تقاضوں کی تکمیل کے ذریعہ انسان کو وہ فہم و بصیرت حاصل ہوتی ہے جس کے ذریعہ اسے اللہ کی مشیت اللہ کے ارادہ سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔ روحانی تقاضوں کی تکمیل کے ذریعے بندہ اللہ کو پہچاننے، اللہ تک پہنچنے، اللہ کو پالینے کے قابل ہوتا ہے۔
اللہ کی ایک شان یہ ہے کہ وہ لا محدود ہے۔ اللہ اپنے بندوں سے بے انتہاء محبت کرتا ہے۔ اللہ لا محدود ہے، اس کی محبت بے انتہاء ہے۔ کیا ایسا کوئی پیمانہ ہے جس سے لا محدود اللہ کی بے انتہاء محبت کا اندازہ لگایا جا سکے….؟ محبت کس قدر لطیف مگر کتنی طاقت عطا کرنے والا جذبہ ہے۔ محبت قلب و نگاہ کو وسعت و گہرائی اور ظاہر و باطن کو حسن و کشش عطا کرتی ہے۔ محبت تعمیر ہے، خیر خواہی ہے، اخلاص ہے، راست بازی ہے۔ محبت سے ذہن و فکر کا تزکیہ ہوتا ہے۔ محبت ایسا لطیف جذبہ ہے جو اپنی جوہری طاقت سے انسانی وجود میں در آنے والی تمام کثافتوں کو دھو ڈالتا ہے۔ محبت کی ایک خاص صفت یہ ہے کہ یہ انسان کی مادی زندگی کے لیے بھی ضروری ہے اور انسان کی روحانی زندگی کے لیے بھی۔ روحانی تقاضوں کو سمجھنے والا اور ان کی تکمیل کا اہتمام کرنے والا فرد اللہ کی محبت اپنے قلب میں محسوس کرتا ہے۔ اس اہتمام میں مزید آگے بڑھ کر وہ اس قابل ہونے لگتا ہے کہ اللہ کی محبت کو اپنی روح کی گہرائیوں تک محسوس کر سکے۔ گویا وہ جان لیتا ہے کہ اللہ کی محبت اس کی روح میں کس طرح رچی بسی ہوئی ہے۔ ایک حدیث قدسی کے مفہوم کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی ال نیم کو کائنات کی تخلیق سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا…. میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں۔ پس میں نے محبت کے ساتھ (تمام عالمین اور مخلوقات کو) تخلیق کیا“۔ اس حدیث قدسی کی روشنی میں بھی ماڈی تقاضوں اور روحانی تقاضوں کے تعارف اور ان کے مقصد کو سمجھا جاسکتا ہے۔ اللہ کی معرفت روحانی تقاضہ ہے جبکہ مخلوقات میں کار فرما مختلف نظاموں کو سمجھنے کا ذریعہ ماڈی تقاضے ہیں۔ جس طرح ماڈی تقاضوں کو سمجھنے اور ان کی بہتر تحمیل کے لیے باڈی علوم کی تحصیل ضروری ہے، اسی طرح روحانی تقاضوں کو سمجھنے اور ان کی بہتر تکمیل کے لیے روحانی علوم کی تحصیل ضروری ہے۔ روحانی علوم انسان کو اس کی تخلیق کے مقصد سے آگاہ کرتے ہیں۔ اسے خود شناسی و خود آگاہی عطا کرتے ہیں۔ انسان کو دانش و بصیرت و حکمت عطا کرتے ہیں۔ روحانی علوم انسان کو اس نظر سے کام لینا سکھا دیتے ہیں جوباطنی نگاہ کہلاتی ہے۔ ایک دن رسول الله صلى ا و لم طلوع آفتاب سے کچھ پہلے اصحاب صفہ کے پاس تشریف لے گئے۔ وہاں حضور علی ایم کی نگاہ ایک نوجوان پر پڑی۔ حضور صلی ا یکم نے اس سے پوچھا ” تم نے صبح کیسے کی “… اس شخص نے جواب دیا میں نے اس حالت میں صبح کی کہ اہل یقین میں سے ہوں“۔ حضور صلی الم نے دریافت فرمایا ” تمہارے اس یقین کی علامت کیا ہے …؟“
اس نے کہا ” میں دن کو روزہ رکھتا ہوں اور رات کو محبت الہی میں جاگتا ہوں“۔
حضور ﷺ نے فرمایا ” یہ چیزیں یقین کی کافی علامت ہیں۔ اس سے آگے بھی کچھ بتاؤ“۔ اس نے عرض کی یار سول اللہ صلی الم اس وقت جبکہ میں اس دنیا میں موجود ہوں تو اس دنیا یعنی غیب کی دنیا کو بھی دیکھ رہا ہوں اور اہل جنت اور اہل جہنم کی آوازیں سن رہا ہوں“۔ حضور صلی علیم نے اس سے پوچھا تم کیا آرزور کھتے ہو ؟“. ” اس نے تمام و کمال ادب سے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ شہادت ، اللہ کی راہ میں شہادت باطنی نگاہ سے اللہ کی نشانیوں کا مشاہدہ کرنے والا ہر بندہ اللہ کی محبت سے سرشار اور اللہ کی قربت کا
حریص ہوتا ہے۔
علم انبیاء کا ورثہ ہے۔ اس ورثہ میں ماڈی علوم بھی شامل ہیں اور روحانی علوم بھی۔ اولیاء اللہ اور صوفیائے کرام، رسول اللہ ﷺ کے روحانی علوم کے وارث ہیں۔ یہ مثالیں ہم لوگوں کی فہمائش کے لیے دیتے ہیں مگر ان کو وہی لوگ سمجھتے ہیں جو علم رکھنے والے ہیں۔ اللہ نے آسمانوں اور زمین کو بر حق پیدا کیا ہے۔ در حقیقت اس میں اہل ایمان کے لیے نشانی ہے۔ (سورۃ العنکبوت) رسول اللہ صلی ایم کے روحانی علوم کے وارث اولیاء کرام آسمانوں اور زمین کی تخلیقات میں، انفس و آفاق میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کو اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اللہ کی ہر نشانی پر ان کا تفکر توحید باری تعالیٰ پر ان کا ایمان مزید مستحکم کرتا ہے۔ انسان میں موجزن ہر روحانی تقاضہ کی تکمیل دراصل توحید باری تعالیٰ پر پختہ ایمان کا اعادہ ہے اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یقیناً جن لوگوں نے کہہ دیا کہ اللہ ہی ہمارا رب ہے۔ پھر اس پر جم گئے۔ ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ایسے سب لوگ جنت میں جانے والے ہیں۔ جہاں وہ ہمیشہ رہیں گئے۔ اپنے ان اعمال کے بدلے جو وہ دنیا میں کرتے رہے“۔ (سورۃ الاحقاف)
بشکریہ ماہنامہ روحانی ڈائجسٹ جون 2015
![]()

