Daily Roshni News

رموزِ بے خودی۔۔۔کلام۔۔۔علامہ اقبال رحمۃ اللہ

رموزِ بے خودی

علامہ اقبال رحمۃ اللہ

تمهید : در معنی ربط فرد و ملت

فرد اور ملت میں ربط کے مفہوم کی وضاحت

پہلا بند

فرد را ربطِ جماعت رحمت است

جوہرِ او را کمال از ملت است

تاتوانی با جماعت یار باش

رونقِ ہنگامۂ احرار باش

حرزِ جان کن گفتۂ خیرالبشر

ہست شیطان از جماعت دور تر

فرد و قوم آئینۂ یک دیگرند

سلک و گوہر کہکشاں و اخترند

فرد می گیرد ز ملت احترام

ملت از افراد می یا بد نظام

فرد تا اندر جماعت گم شود

قطرۂ وسعت طلب قلزم شود

مایہ دارِ سیرتِ دیرینہ او

رفتہ و آینده را آئینہ او

وصلِ استقبال و ماضی ذاتِ او

چوں ابد لا انتہا اوقاتِ او

در دلش ذوقِ نمو از ملت است

احتسابِ کارِ او از ملت است

پیکرش از قوم و ہم جانش ز قوم

ظاہرش از قوم و پنہانش ز قوم

در زبانِ قوم گویا می شود

بر رهِ اسلاف پویا می شود

پختہ تر از گرمئ صحبت شود

تا بمعنی فرد ہم ملت شود

وحدتِ او مستقیم از کثرت است

کثرت اندر وحدتِ او وحدت است

لفظ چوں از بیتِ خود بیرون نشست

گوہرِ مضمون بجیبِ خود شکست

برگِ سبزے کز نہالِ خویش ریخت

از بہاراں تارِ امیدش گسیخت

ہر کہ آب از زمزمِ ملت نخورد

شعلہ ہائے نغمہ در عودش فسرد

فرد تنہا از مقاصد غافل است

قوتش آشفتگی را مائل است

قوم با ضبط آشنا گرداندش

نرم رو مثلِ صبا گرداندش

پا بہ گِل مانندِ شمشادش کند

دست و پا بندد کہ آزادش کند

چوں اسیرِ حلقۂ آئین شود

آ ہوئے رم خوئے او مشکین شود

دوسرا بند

تو خودی از بیخودی نشناختی

خویش را اندر گمان انداختی

جوہرِ نوریست اندر خاکِ تو

یک شعاعش جلوۂ ادراکِ تو

عیشت از عیشش غمِ تو از غمش

زندۂ از انقلابِ ہر دمش

واحد است و بر نمی تا بد دوئی

من ز تابِ او من استم تو توئی

خویش دار و خویش باز و خویش ساز

ناز ہا می پر ورد اندر نیاز

آتشے از سوزِ او گردد بلند

ایں شرر بر شعلہ اندازد کمند

فطرتش آزاد و ہم زنجیری است

جزوِ او را قوت کل گیری است

خوگر پیکار پیہم دیدمش

ہم خودی ہم زندگی نامیدمش

چوں ز خلوت خویش را بیرون دہد

پائے در ہنگامۂ جلوت نہد

نقش گیر اندر دلش «او» می شود

«من» ز ہم می ریزد و «تو» می شود

جبر، قطعِ اختیارش می کند

از محبت مایہ دارش می کند

ناز تا ناز است کم خیزد نیاز

ناز ہا سازد بہم خیزد نیاز

در جماعت خود شکن گردد خودی

تا ز گلبرگے چمن گردد خودی

«نکتہ ہا چوں تیغ پولاد است تیز

گر نمی فہمی ز پیش ما گریز»

فصلِ اول

تمہید : فلسفۂ اجتماع (سوشیالوجی) کے ماہرین میں اس سوال پر اختلاف آراء پایا جاتا ہے کہ فرد اور جماعت میں کیا رشتہ ہے؟ بعض حکماء کا یہ خیال ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں. اور اسی لیے ایک کی ترقی دوسرے کے تنزل کا باعث ہے. لیکن اقبال اس نظریہ کے مخالف ہیں. اُن کی رائے میں فرد اور جماعت دونوں آپس میں مربوط ہیں، اور ایک کی ترقی دوسرے کی ترقی پر موقوف ہے. چنانچہ انہوں نے اپنی تمہید میں اسی نظریہ کی وضاحت کی ہے.

اُن کی وضاحت کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں میں تضاد نہیں ہے بلکہ کامل ہم آہنگی اور توافق ہے یعنی جماعت کی بہبود، افراد کی بہبود سے جداگانہ کوئی شئے نہیں ہے.

بعض حکماء کا خیال یہ ہے کہ فرد اور جماعت میں تضاد تو نہیں ہے لیکن جماعت کو فرد پر تفوق حاصل ہے. بعض اس کے برعکس فرد کو جماعت پر فضیلت دیتے ہیں. لیکن اقبال کہتے ہیں کہ یہ دونوں نظریے غلط ہیں. حقیقت یہ ہے کہ فرد اور جماعت دونوں ہم پلہ ہیں اور ایک دوسرے کے لیے بمنزلہء آئینہ ہیں.

یہ سچ ہے کہ بعض اوقات چند افراد اپنی جان قوم کی بقا کے لئے قربان کر دیتے ہیں۔ لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکل سکتا کہ قوم اعلیٰ اور افضل ہے۔ کیونکہ بعض اوقات ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ پوری قوم ایک فرد کی عزت کے لئے سربکف ہو کر میدانِ جنگ میں کود پڑتی ہے۔

اقبال کا نظریہ یہ ہے کہ ہر فرد کی ذات میں انفرادیت اور اجتماعیت کے عناصر اس طرح پیوستہ ہوتے ہیں کہ اُنہیں جدا نہیں کیا جا سکتا. اسی لئے ہر فرد میں شخصیت کے ان دونوں پہلووں کی طرف طبیعی میلان پایا جاتا ہے، اور اس کی خودی کی تکمیل کے لئے ان دونوں کی آبیاری لازمی ہے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اسرارِ خودی کے بعد رموزِ بیخودی لکھی۔ اول الذکر میں فرد کی شخصیت کے ذاتی یا انفرادی پہلو کی، اور آخر الذکر میں اس کی شخصیت کے اجتماعی یا عمرانی پہلو کی تربیت کا پروگرام قرآن کی روشنی میں پیش کیا ہے۔

خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اقبال کی تعلیم یہ ہے کہ :۔

(۱) جماعت کے بغیر فردا اپنی شخصیت کی تکمیل نہیں کر سکتا.

(۲) افراد کے بغیر جماعت کا وجود متحقیق نہیں ہو سکتا۔

(۳) بڑا آدمی وہ نہیں جو جماعت سے الگ رہ کر زندگی بسر کرے۔ بلکہ بڑا آدمی وہ ہے جو اپنی جماعت کے ساتھ ایسی ہم آہنگی اور مطابقت پیدا کر لے کہ

ظاہرش از قوم و پنہانش زقوم

کا مصداق بن جائے۔

اسی لئے اقبال نے خطبات میں اس موضوع پر فلسفیانہ رنگ میں اظہارِ خیالات کیا ہے۔ اور اس ضمن میں لکھا ہے کہ “جماعت کے ساتھ منسلک رہنے سے فرد میں مشاہدہ کی قوت اور جذبات کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور ارادہ میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے.”

اقبال، پروفیسر میک ڈوگل کے اس خیال سے بھی متفق ہیں کہ سوسائٹی کے بغیر فرد میں آدمیت پیدا نہیں ہو سکتی یہ کیونکہ جماعت ہی اس کے اندر ضبط کا مادہ پیدا کرتی ہے، اور اس کو قانون کا احترام سکھاتی ہے۔

لفظ ملت کا مفہوم :

اقبال نے اس تمہید میں لفظ ملت کو قوم کے معنی میں استعمال کیا ہے. ذیل میں اس لفظ کی مختصر تحقیق درج کرتا ہوں :-

واضح ہو کہ ملت عربی زبان کا قدیم لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں، مذہب یا مشربِ دین. قرآن و حدیث اور لغتِ عرب میں یہ لفظ صرف اسی معنی میں مستعمل ہے۔ مثلاً مِلَّةَ اَبِیکُم اِبرَاهِیمَ – تمہارے باپ ابراہیم کا دین۔

دوسری مثال: علامہ شہرستانی کی کتاب کا نام الملل و النحل ہے۔ اس میں ملل (جمع ملت) ادیان و مذاہبِ عالم پر بولا گیا ہے۔

تیسری مثال : اردو میں بھی (آج سے سو سال پہلے) ملت کا لفظ مذہب کے معنی میں مستعمل تھا.

کس کی حالت میں گنوں آپکو بتلا اے شیخ

تو کہے گبر مجھے، گبر مسلماں مجھ کو

لیکن جديد عربی اور فارسی میں ملت کے معنی قوم کے ہو گئے ہیں اور چونکہ جدید فارسی ہندوستان کے موجودہ انگریزی دان طبقہ میں بھی راہ پا گئی ہے اس لیے وہ ملت کے قدیم مفہوم سے بیگانہ ہو گئے اور انہوں نے اس لفظ کو قوم کے معنی میں استعمال کرنا شروع کر دیا.

اقبال نے اس مشہور شعر میں بھی لفظ ملت کو قوم ہی کے معنی میں استعمال کیا ہے.

سرود بر سرِ منبر کہ مِلّت از وطن است

چہ بے خبر ز مقامِ محمدِؐ عربی است

مطلب : یہ تو گویا منبر پر سرود بجانے کے مترادف ہے کہ قوم وطن سے بنتی ہے۔ یہ مقامِ محمد عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر بے خبری ہے۔

شرح : پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم

پیشکش : قیصر ندیم

Loading