اورنگ زیب عالمگیر، تاج، تلوار اور تنہائی کی داستان
دہود کے ایک محل میں نومبر کی ایک خاموش صبح ممتاز محل نے اپنے چھٹے بیٹے کو جنم دیا
شاہجہان نے اس کا نام رکھا محی الدین محمد
بچپن سے ہی یہ لڑکا دوسروں سے مختلف تھا
جب درباری شہزادے کھیل کود اور موسیقی میں مگن رہتے، وہ گوشے میں بیٹھ کر قرآن پڑھتا اور پوچھتا، کیا بادشاہی بھی جواب دہی سے آزاد ہے؟
شاہجہان کو اپنے سب بیٹوں سے محبت تھی مگر دل میں ایک نرم گوشہ صرف دارا شکوہ کے لیے تھا
دارا شاعر تھا، صوفی تھا، خواب دیکھتا تھا کہ ہندو اور مسلمان ایک ساتھ روشنی کی تلاش کریں
اورنگ زیب کو لگتا یہ روشنی نہیں، گمراہی ہے
وہ کہتا، سلطنت تب ہی بچتی ہے جب ایمان قائم رہے
پھر ایک دن خبر آئی کہ بادشاہ بیمار پڑ گیا
اور یوں محبت کے بندھنوں میں آگ لگ گئی
چار شہزادے، ایک تخت
اورنگ زیب جانتا تھا کہ رحم کھایا تو مروادیا جائے گا
اس نے وہی کیا جو مغلوں کی روایت تھی، پہلے بھائیوں سے، پھر باپ سے جنگ
سن 1658 میں وہ تخت نشین ہوا
اس کے والد شاہجہان، تاج محل بنانے والے بادشاہ، اب اسی آگرہ قلعے میں قید تھے جہاں سے کبھی سلطنت چلائی جاتی تھی
کہا جاتا ہے کہ شاہجہان اپنی بالکنی سے تاج محل دیکھتے رہتے
اورنگ زیب انہیں قرآن اور دوا بھیجتا رہتا مگر خود کبھی نہ گیا
اس کے تین بھائی دارا، شجاع اور مراد سب مٹ گئے
شاہی خاندان، جسے کبھی نور جہاں کہا جاتا تھا، اب آنسوؤں میں بجھ گیا
دو بہنیں باقی رہیں
جہان آرا بیگم نرم دل اور دانشمند، جو کبھی دارا کی طرف تھیں مگر آخر میں بھائی کو معاف کر دیا
اور روشن آرا بیگم، جس نے تخت کی راہوں میں اس کا lساتھ دیا مگر بعد میں خود ہی سازشوں میں گِر گئی
اورنگ زیب کی دنیا محدود ہوتی گئی
کتابوں، فتووں اور جنگوں تک
اس کی محبوب بیوی دلرس بانو بیگم جلد مر گئی
اس نے اس کے لیے بی بی کا مقبرہ بنوایا، ایک چھوٹا سا تاج محل، مگر دل سے اٹھنے والی دعا کی طرح سادہ
بیٹی زیب النسا مخفی شاعری کرتی، فارسی میں غزلیں لکھتی
اورنگ زیب کے مذہبی مشیروں کو یہ پسند نہ آیا
اسے نظر بند کر دیا گیا
کہا جاتا ہے کہ اس نے قید کے دوران یہ شعر لکھا:
“قید میں بھی وہی روشنی تھی، جو دل کے اندر تھی”
زندگی کے آخری برسوں میں اورنگ زیب کے ہاتھوں میں سب کچھ تھا، سوائے سکون کے
اس نے برصغیر کو شمال سے جنوب تک فتح کر لیا، مگر دل خالی رہا
کہتا تھا، میں نے زندگی بھر اللہ کی راہ میں جنگ کی، مگر اب خود سے صلح چاہتا ہوں
تین مارچ سترہ سو سات کو دکن کے میدانوں میں اس نے دنیا سے رخصت لی
اس کی وصیت سادہ تھی۔
مجھے سفید کپڑے میں کفن دینا۔ میری قبر پر پتھر مت لگانا۔
آج خلد آباد میں اس کی مٹی کی قبر ہے۔
نہ سنگ مرمر، نہ کتبہ
صرف مٹی اور خاموشی
تخت باقی نہ رہا، مگر وہ سوال رہ گیا
کیا ایمان اور اقتدار ایک دل میں رہ سکتے ہیں؟
![]()

