رام پور کی صبحوں میں عطر کی ہلکی خوشبو ہوتی تھی۔ روشنی سنگ مرمر پر پھیلتی تھی۔ محل کی راہداریوں میں قدموں کی چاپ آہستہ آہستہ گھل جاتی تھی۔ انہی صبحوں میں ایک ننھی شہزادی نے آنکھ کھولی، 24 جنوری 1933۔ نام تھا مہرانسہ۔ دل میں خودداری، مزاج میں نرمی، نگاہ میں وقار۔
وقت گزرا۔ رسوم نے راستے بنائے۔ لوگ سمجھتے تھے کہ تخت طے کرتا ہے کہانی کا موڑ، مگر اس نے طے کیا کہ دل فیصلہ کرے گا۔ پہلی شادی نے امتحان لیا۔ وہ کامیابی نہیں ہوئی۔ اس نے ہمت کے ساتھ علاحدگی کا راستہ چنا۔ فیصلہ مشکل تھا، مگر اس کی چال مضبوط رہی۔ عزت، خاموشی، اور خودداری کے ساتھ۔
پھر محبت سامنے آئی۔ ایک پائلٹ کے قدموں کی چاپ سنائی دی۔ گروپ کیپٹن عبدالرحیم خان۔ ایک ملاقات نے سمت بدل دی۔ اس نے تعلق کو مرتبہ یا اختیار کی کسوٹی پر نہیں پرکھا۔ اس نے دل کی دھڑکن پر بھروسہ کیا۔ سرحدیں تھیں۔ روایات سخت تھیں۔ اس نے سرحدیں پار کیں۔ شہر بدلا۔ عادتیں بدلیں۔ خاندان کے کئی حقوق اور آسائشیں پیچھے چھوڑیں۔ محبت کو تھاما۔
کراچی کے دن گزرے۔ پھر زندگی نے ایک اور سفر لکھا۔ واشنگٹن کی سڑکیں، اجنبی موسم، مگر چہرے پر وہی وقار۔ اب سامنے تخت نہیں تھا، سامنے کلاس روم تھا۔ سفید بورڈ، کرسیوں کی قطاریں، اور طلبہ جو اردو کا پہلا حرف سیکھنے آتے تھے۔ وہ مسکرا کر کہتی، لفظ محبت یوں بولا جاتا ہے۔ آواز نرم رہتی۔ لہجہ شفیق رہتا۔ جو طالب علم آتے، انہیں کم ہی معلوم ہوتا کہ وہ ایک شہزادی سے پڑھ رہے ہیں۔ شہزادی نے زبان کو رتبے سے نہیں، رشتے سے جوڑا۔ زبان کے ذریعے وہ لوگوں کو دل کے قریب لاتی رہی۔
زندگی نے دکھ بھی دیے۔ جدائیاں آئیں۔ سوگ آیا۔ اس نے صبر کو لباس کی طرح اوڑھ لیا۔ شکایت کم کی۔ شکر زیادہ کیا۔ وقار کم نہ ہوا۔ قدم ڈگمگائے نہیں۔ دعا کی خوشبو اس کے اطراف رہی۔
وقت کے کیلنڈر نے ایک طویل کہانی مکمل کی۔ 28 اکتوبر 2025 کی شام نے دروازہ بند کیا۔ مگر کہانی ختم نہیں ہوئی۔ کہانی وہاں شروع ہوئی جہاں تاج کا وزن اترتا ہے اور انسان کی اصل سامنے آتی ہے۔ مہرانسہ نے سکھایا کہ شاہی ہونا زیور سے نہیں، کردار سے ہوتا ہے۔ کہ محبت قربانی مانگتی ہے، مگر اس قربانی میں روشنی ملتی ہے۔ کہ عورت جب اپنے فیصلے خود کرتی ہے تو خاندان، روایت اور تاریخ سب کو ایک نئی شان عطا ہوتی ہے۔
آج رام پور کی فصیلیں خاموش ہیں۔ واشنگٹن کی ایک خاموش گلی میں مٹی نے ایک نفیس امانت سنبھالی ہے۔ مگر لفظ اب بھی زندہ ہیں۔ وہ کلاس روم اب بھی یاد کرتا ہے جہاں محبت کا تلفظ درست کیا جاتا تھا۔ وہ دل اب بھی دعا دیتا ہے جسے اس نے حوصلہ دیا۔ وہ صفحات اب بھی کھلتے ہیں جن پر اس نے اپنی زندگی خود لکھی۔
الوداع شہزادی مہرانسہ بیگم صاحبہ۔ آپ نے محلات کو انسانیت سے جوڑا۔ آپ نے روایت کو دل کی راہ دکھائی۔ آپ نے بتایا کہ محبت اختیار ہے، بوجھ نہیں۔
اللہ آپ کی مغفرت فرمائے۔
آمین
![]()

