Daily Roshni News

رموزِ بے خودی۔۔۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ۔۔انتخاب ۔۔۔۔ چوہدری اکرام الحق

رموزِ بے خودی

علامہ اقبال رحمۃ اللہ

انتخاب  ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چوہدری اکرام الحق

ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )تمهید : در معنی ربط فرد و ملت

فرد اور ملت میں ربط کے مفہوم کی وضاحت

فرد را ربطِ جماعت رحمت است

جوہرِ او را کمال از ملت است

تاتوانی با جماعت یار باش

رونقِ ہنگامۂ احرار باش

حرزِ جان کن گفتۂ خیرالبشر

ہست شیطان از جماعت دور تر

فرد و قوم آئینۂ یک دیگرند

سلک و گوہر کہکشاں و اخترند

فرد می گیرد ز ملت احترام

ملت از افراد می یا بد نظام

فرد تا اندر جماعت گم شود

قطرۂ وسعت طلب قلزم شود

مایہ دارِ سیرتِ دیرینہ او

رفتہ و آینده را آئینہ او

وصلِ استقبال و ماضی ذاتِ او

چوں ابد لا انتہا اوقاتِ او

در دلش ذوقِ نمو از ملت است

احتسابِ کارِ او از ملت است

پیکرش از قوم و ہم جانش ز قوم

ظاہرش از قوم و پنہانش ز قوم

در زبانِ قوم گویا می شود

بر رهِ اسلاف پویا می شود

پختہ تر از گرمئ صحبت شود

تا بمعنی فرد ہم ملت شود

وحدتِ او مستقیم از کثرت است

کثرت اندر وحدتِ او وحدت است

لفظ چوں از بیتِ خود بیرون نشست

گوہرِ مضمون بجیبِ خود شکست

برگِ سبزے کز نہالِ خویش ریخت

از بہاراں تارِ امیدش گسیخت

ہر کہ آب از زمزمِ ملت نخورد

شعلہ ہائے نغمہ در عودش فسرد

فرد تنہا از مقاصد غافل است

قوتش آشفتگی را مائل است

قوم با ضبط آشنا گرداندش

نرم رو مثلِ صبا گرداندش

پا بہ گِل مانندِ شمشادش کند

دست و پا بندد کہ آزادش کند

چوں اسیرِ حلقۂ آئین شود

آ ہوئے رم خوئے او مشکین شود

پہلے تین اشعار کی تشریح

واضح ہو کہ اقبال نے “پیش کش” میں میں عاشقانہ شاعری کا اسلوبِ بیان اختیار کیا ہے، چنانچہ عرفی کا شعر اس پر شاہد ہے، لیکن تمہید خالص اسلامی رنگ میں لکھی ہے. جب ہم پیشکش پڑھنے کے بعد “تمہید” کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ نئی دنیا میں آ گئے ہیں. مثال کے طور پر پہلے دو شعروں پر غور کیجیے. اقبال نے پہلے شعر کے پہلے مصرع میں فرد کے لیے جماعت سے وابستگی کو “رحمت” قرار دیا ہے اور اربابِ علم جانتے ہیں کہ یہ لفظ نہ عاشقانہ ہے نہ فلسفیانہ بلکہ خالص اسلامی (قرآنی) ہے. اقبال نے یہ لفظ قرآن مجید کی اس آیت شریفہ سے اخذ کیا ہے.

 وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ  بَیۡنَہُمۡ

ترجمہ : اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت  ہیں آپس میں رحمدل ہیں. (سورۃ الفتح – آیت 29(

دوسرے مصرع میں لفظ “جوہر” سے مراد ذات یا نفسِ ناطقہ یا روح ہے. اس پر قرینہ یہ ہے کہ فلاسفہ نے نفسِ ناطقہ کو عرض یا جسم یا مادی نہیں مانا بلکہ اسے مجردات میں سے تسلیم کیا ہے چنانچہ علم النفس کی کتابوں میں مرقوم ہے کہ نفسِ ناطقہ ایک جوہرِ مجرد ہے.

اس کے بعد علم الاخلاق میں انہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ حصولِ کمال کی آرزو، نفسِ ناطقہ کا ذاتی تقاضا ہے. اور علم یا معرفت (گیان) سے اس کو کمال حاصل ہو سکتا ہے. لیکن اقبال یہ کہتے ہیں کہ

جوہرِ او را کمال از ملت است

جب فرد اپنا رابطہ ملت سے استوار کر لیتا ہے تو کمال کی کئی راہیں اُس پر کشادہ ہو جاتی ہیں یعنی حصولِ کمال اسی رابطہ پر موقوف ہے.

اقبال نے دوسرے شعر میں حصولِ کمال کا طریقہ بیان کیا ہے کہ جہاں تک تم سے ممکن ہو سکے اجتماعی زندگی بسر کرو. جماعت کے ساتھ رہو اس شعر میں یار کا معنیٰ ہے مددگار، معین یا رفیق کار اور احرار سے مراد ہیں مسلمان. کیونکہ قرآن مجید کی رو سے مسلمان دنیا میں کسی کا غلام نہیں ہو سکتا. اسلام اور غلامی میں تقابل تضاد ہے.

واضح ہو کہ جس طرح مولانا رومی نے مثنوی کے پہلے دو اشعار میں پوری مثنوی بیان کر دی ہے، اسی طرح اقبال نے ان دو اشعار میں ساری “رموزِ بے خودی” کا عطر کھینچ دیا ہے.

بات صرف اتنی ہی ہے کہ

(ا) – فرد کا جماعت سے مربوط اور پیوستہ رہنا اس کے حق میں باعثِ رحمت ہے.

(ب) – کیونکہ اس کی خودی کی تکمیل اجتماعی زندگی بسر کرنے ہی سے ہو سکتی ہے. اجتماعی زندگی کی بدولت اُس کی خودی کی مخفی صلاحیتیں بروئے کار آ جاتی ہیں. اسی لیے اسلام کا دوسرا نام ہئیت اجتماعیہ انسانیہ بھی ہے.

(ج) – پس روحانی کمال حاصل کرنے کے لیے فرد کو لازمی ہے کہ حتیٰ المقدور اجتماعی زندگی بسر کرے. خیالات، اقوال اور اعمال تینوں شعبوں میں جماعت کی پیروی کرے. اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ نہ بنائے. واضح ہو کہ اقبال نے اسی بات کو پوری کتاب میں بالوضاحت بیان کیا ہے.

تیسرے شعر میں انہوں نے اپنے دعویٰ کو حدیثِ نبوی سے مدلل کیا ہے.

عليكم بالسواد الأعظم فانه من شذ شذ فى النار

ترجمہ : اے مسلمانوں ! تم پر اجتماعی زندگی بسر کرنی فرض ہے کیونکہ جو شخص جماعت سے الگ ہو گیا تو اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے.

ترمذی شریف میں یہ حدیث یوں آئی ہے

فَاتَّبِعُوا السَّوَادَ الْأَعْظَمَ، فَإِنَّهُ مَنْ شَذَّ شَذَّ فِي النَّارِ

ترجمہ : اے مسلمانوں! سوادِ اعظم (جماعت) کی اتباع کرو کیونکہ جو شخص سوادِ اعظم (جماعت) سے کٹ جائے گا وہ دوزخ میں جا پڑے گا.

اس کے علاوہ ابن ماجہ میں یہ حدیث آئی ہے

يد الله على الجماعة

ترجمہ : جماعت پر اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہوتا ہے یعنی جماعت گمراہ نہیں ہو سکتی.

تیسری حدیث میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ “جماعت سے الگ مت رہو. کیونکہ بھیڑیا اُسی بکری کو لے جاتا ہے جو گلہ سے الگ ہو جاتی ہے”

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شیطان اُس شخص کو ہرگز نہیں ورغلا سکتا جو جماعت (سوادِ اعظم) کے ساتھ ہے یعنی اجتماعی زندگی بسر کرتا ہے.

شارح : پروفیسر یوسف سلیم چشتی مرحوم

پیشکش : قیصر ندیم

Loading