۔۔۔۔۔۔۔ احساس مسیحا ۔۔۔۔۔۔۔
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناز پروین
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ احساس مسیحا ۔۔ تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناز پروین)جاٶ بی بی دماغ نہ خراب کرو۔۔ اکثر و بیشتر ہمیں یہ جملہ سننے کو ملتا ہے ۔اور وہ بھی اپنے مسیحاؤں سے ۔۔ڈاکٹروں سے اکثر پالا پڑتا رہتا ہے ۔۔کبھی اپنے لیے اور کبھی گھر والوں کے ساتھ لیکن یہ تجربہ کچھ خوشگوار نہیں ہوتا ۔۔مریضوں کا جم غفیر۔۔ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ مریضوں کو نمٹنا ۔۔ڈاکٹر کا اکھڑا لہجہ ۔۔۔سرسری سی تشخیص اور پھر ٹیسٹوں دوائیوں کی ایک لمبی لسٹ ۔۔اگر کبھی غلطی سے پوچھ لیں کہ بیماری کی وجہ کیا ہے یا اس کی علامات درست ہیں یا نہیں تو ڈاکٹر صاحب بھنا کر بولتے ہیں ایسا کریں آپ خود ہی اپنا علاج کر لیں ۔بقول شاعر
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو کہ حال اچھا ہے
ایک عزیزی دوست کے ساتھ ایک بہت عجیب واقعہ پیش آیا ۔انہیں سینے میں تکلیف محسوس ہوئی۔ وہ علاج کے لیے ایک بہت مشہور ہسپتال میں گئیں ۔وہاں دل کے نامی گرامی ڈاکٹر سے ٹائم لیا ۔ڈاکٹر صاحب نے ان کی تمام علامات سننے کے بعد کہا کہ بی بی میرا خیال ہے تمہیں اپنے شوہر کی توجہ چاہیے اسی لیے مکر کر کے میرے پاس آگئی ہو ۔تاکہ میں تمہیں خوب دوائیاں اور ٹیسٹ لکھ دوں اور تم اپنے شوہر کو بتا سکو کہ میں کتنی بیمار ہوں ۔میری دوست کہنے لگی کہ میں اس سینیئر ڈاکٹر کی بات سن کر ہکا بکا رہ گئی ۔۔وہ صاحب فرمانے لگے کہ میرے پاس زیادہ تر خواتین اسی طرح کی آتی ہیں جنہیں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن صرف اپنے شوہر نامدار کی توجہ حاصل کرنے کے لیے آ جاتی ہیں ۔میری دوست وہاں سے خاموشی سے اٹھ کر آگئیں۔اور پھر اسلام آباد کے ایک ہسپتال میں علاج کے لیے گئی ۔جہاں اس کے مرض کی تشخیص ہوئی اور اس کا علاج جاری ہے ۔میری یہ دوست ایک نامور لکھاری ہے اور اس نے یہ واقعہ فیس بک پر بڑی تفصیل سے اپنی پوسٹ میں لکھا ۔اور ان ڈاکٹر صاحب کا نام لیے بغیر ان کا اچھا خاصا پوسٹ مارٹم بھی کر ڈالا ۔
۔سفید اوور کوٹ پہنے یہ ڈاکٹر ضرور ہیں لیکن مسیحا نہیں ۔۔۔زیادہ سے زیادہ دولت کمانے کے چکر میں مصروف ۔۔۔مریضوں کی بات نہ سننا ان کا وتیرہ بن چکا ہے حالانکہ اگر ڈاکٹر نرم لہجے سے دلچسپی لے کر مریض کی بات سنیں تو آدھا مرض وہیں ختم ہو جاتا ہے ۔ لیکن سب ڈاکٹر ایسے نہیں ہوتے ۔۔کچھ دن پہلے اپنی کچھ دوستوں کے ساتھ ایک گروپ میں بریسٹ کینسر سے متعلق ورکشاپ میں شرکت کی ۔
ڈاکٹر صفورہ شاہد نے دو گھنٹے سے زیادہ ہمیں تفصیل سے بریسٹ کینسر کے بارے میں آگاہی دی ۔سادہ سا لباس ۔۔مسکراتا چہرہ ۔۔نرم لہجہ۔۔ عجزو انکسار کا پیکر۔۔۔ ڈاکٹر صفورہ شاہد کا شمار پاکستان کے نامور کینسر سپیشلسٹ میں ہوتا ہے ۔ان کے اس لیکچر کے دوران نہ تو بوریت ہوئی اور نہ بیزاری کہ ان کا لہجہ دھیما اور اور انداز بیاں اتنا متاثر کن تھا کہ سب دلچسپی سے سنتے رہے۔لیکچر کے دوران وہ اپنی زندگی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بھی بتاتی رہیں ۔ اس موذی مرض کا شکار ہمارے ارد گرد بہت سے عزیز دوست اکارب اور رشتہ دار ہو چکے ہیں۔۔ان میں زیادہ تر کو بے کسی کی موت مرتے دیکھا ۔بہت سے سوال لبوں پر مچل رہے تھے لیکن ڈاکٹر صفورا نے اتنا تفصیلی اور جامع لیکچر دیا کہ ہمارے سوالوں کے جواب خود بخود ملتے گئے ۔انہوں نے بتایا کہ ارنم ہسپتال صوبے کا پہلا کینسر ہسپتال ہے جہاں مریضوں کو ہر طرح کی سہولتیں اور علاج مہیا کیا جاتا ہے ۔80 کی دہائی میں مریضوں کی اکثریت افغانی تھی جبکہ پاکستانی مریض بھی بہت زیادہ تعداد میں آتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر نو میں سے ایک خاتون اس مرض کا شکار ہوتی ہے ۔بریسٹ کینسر سے متعلق حفاظتی تدابیر نہیں ہیں ۔یہ کسی بھی خاتون کو عمر کے کسی بھی حصے میں ہو سکتا ہے ۔موجودہ دور میں پیزا برگر کھانے والی نسل میں اس کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے اور کم عمر بچیاں بھی اس کا شکار ہو رہی ہیں ۔لیکن مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ہر مہینے اپنا معائنہ خود کرنا چاہیے ۔۔اس سلسلے میں انہوں نے تمام شرکاء خواتین کو معلوماتی بروشر بھی فراہم کیے ۔ارنم کے دور کی اپنی یادیں شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ صبح آٹھ بجے سے دو بجے تک نان سٹاپ او پی ڈی میں مریضوں کو دیکھتی رہتیں ۔ایک دن تھک کر اپنی گاڑی کی طرف جا رہی تھیں تو ایک بابا جی آئے اور کہا ڈاکٹر صفورا یہ رپورٹیں دیکھ لیں ۔کہنے لگیں صبح سے مریض دیکھ دیکھ کر تھک چکی تھی تھوڑی درشتی سے جواب دیا کہ کل صبح آنا۔اس پر بابا جی نے کہا کہ ایک بات سن لو۔۔ اگر ہم نہ ہوتے تو آج تم بھی ڈاکٹر صفورا نہ ہوتی۔۔بابا جی کی یہ بات سن کر میں ٹھٹک گئی ۔۔فوراً ان سے کاغذات لیے رپورٹیں پڑھیں اور پھر آرام سے کہا کہ او پی ڈی بند ہو چکی ہے ۔۔آپ کل صبح اپنے مریض کو میرے پاس لے آئیے گا ۔میں دیکھ لوں گی۔۔ ساتھ میں تھوڑی سی رقم بھی انہیں دی کہ وہ تیراہ سے آئے تھے اور رات گزارنے کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔اگلے دن صبح وہ بابا جی اپنی مریضہ کو ساتھ لائے۔۔ میں نے انہیں تفصیل سے دیکھا علاج تجویز کیا ۔اس طرح کے بے شمار واقعات سے ان کی پیشہ ورانہ زندگی بھری پڑی ہے اس دوران وہ ریڈییشن کا شکار بھی ہوئیں لیکن انہوں نے پریکٹس نہ چھوڑی ۔شادی، بچے اور گھرداری ساتھ ساتھ جاری رکھی ۔انہوں نے کہا کہ بہت دکھ ہوتا تھا جب مریض کے رشتہ دار ساتھ آتے ۔۔کینسر تشخیص ہونے پر یہ کہہ کر چلے جاتے کہ بی بی ہمارے گھر میں تو کھانے کو روٹی نہیں اس کا علاج کیسے کروائیں گے ۔۔ان حالات سے وہ بہت متاثر ہوتیں ۔ آخر انہوں نے اس کا حل سوچا اور مختلف لوگوں کی مدد سے ایک فلاحی ادارہ بنایا جہاں ایسے ضرورت مند مریضوں کی مدد کی جاتی ۔اس طرح کی بے شمار کہانیوں سے روزانہ ان کا پالا پڑتا ۔۔وہ بہت متاثر بھی ہوتیں اور اپنے بچوں کو مریضوں کے بارے میں بتاتیں تاکہ انہیں بھی احساس ہو کہ وہ تو ایک پرتعیش ماحول میں سہولتوں کے ساتھ پروان چڑھ رہے ہیں لیکن ان کے ارد گرد لوگ کتنی مجبوری بے کسی کی زندگی گزار رہے ہیں ۔ ان کے بچوں کو بھی احساس ہو کہ زندگی کتنی کٹھن ہے ۔انہوں نے کینسر کے مختلف مراحل کے بارے میں بتایا اور کہا کہ سٹیج فور کے مریضوں کا علاج بھی کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں زیادہ تر خواتین کو جب اپنے کینسر کے بارے میں پتہ چلتا ہے تو وہ اسے چھپاتی رہتی ہیں جس کی بہت سی وجوہات ہیں جس میں معاشی مسائل۔۔ خاندان کا دباؤ اور شعور کی کمی ہے ۔کینسر شروع کے دنوں میں بہت زیادہ پھلتا پھولتا ہے اور جتنا زیادہ یہ پھیلے گا اس کا علاج اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جاتا ہے اور آخر میں ناممکن ہو جاتا ہے ۔انہوں نے بار بار زور دیا کہ 13 سال کی عمر سے ہی بچیاں اور خواتین خود ہر مہینے اپنا معائنہ گھر پہ کریں ۔ذرا سا شک ہونے پر فوراً ڈاکٹر کے پاس جائیں ۔۔ شروع میں اس کا علاج آسان ہے۔انہوں نے بتایا کہ کینسر کی ایک بنیادی وجہ موروثی بھی ہو سکتی ہے۔۔ اگر خاندان میں کسی خاتون کو بریسٹ کینسر ہو تو اس کی اولاد یا دیگر رشتہ دار خواتین کو بھی اس کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ۔انہوں نے گروپ کے شرکا کو کہا کہ آپ اپنے تمام خاندان ۔۔ دوستوں کو بریسٹ کینسر کے بارے میں آگاہی دیں اور انہیں بتائیں کہ گھر پر اپنا معائنہ ہر ماہ باقاعدگی سے کریں ۔آخر میں تمام شرکا خواتین نے ایک ایک کر کے ڈاکٹر صفورہ سے سوالات کیے جن کے انہوں نے بہت تسلی سے جواب دیے ۔ڈاکٹر صفورا پاکستان کی ایک نامور کینسر اسپیشلسٹ ہیں ۔۔وہ صحیح معنوں میں مسیحا ہیں۔۔ آپ ہمارے ملک کا فخر ہیں۔ آپ نے پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کے بہت سے ممالک میں مختلف فورمز پر اپنے ملک کی نمائندگی کی ۔ڈاکٹر صفورہ شاہد کے ساتھ گزرے ہوئے یہ لمحات یادگار بن گئے ۔کاش ہمارے معالج صرف ڈاکٹر ہی نہ ہوں مسیحا بھی بنیں ۔
![]()

