پرانے دنوں کی عیدیں
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔ وسعت اللہ خان
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل ۔۔۔ پرانے دنوں کی عیدیں۔۔۔ تحریر ۔۔۔۔۔ وسعت اللہ خان)جب ابّا کی تنخواہ کے ساڑھے تین سو روپے مکمل خرچ ہو جاتے، تب امّاں ہماری پسند کا پکوان تیار کرتیں — ایک ایسا کھانا جو فاقہ زدہ دنوں میں عید کا ذائقہ دیتا۔ سوکھی روٹیاں، جو پورے مہینے پرانے کپڑے کے تھیلے میں جمع ہوتی رہتیں، اُن کی قسمت آخرکار چمکتی۔ امّاں انہیں پانی میں بھگو کر نرم کرتیں، بچی ہوئی دالیں اور سل بٹے پر پسے مصالحے اُن میں شامل کر کے ہانڈی چڑھا دیتیں۔ خوشبو پھیلتی، تو ہمیں لگتا جیسے دسترخوان پر حلیم آگئی ہو۔ ہم سب بچے انگلیاں چاٹتے رہ جاتے، اور امّاں کے حصے میں صرف دیگچی کی تہہ میں بچی ہوئی کھرچن آتی — مگر اُن کے لبوں پر مسکراہٹ ہوتی۔
“کھرچن کا مزہ تم لوگ کیا جانو”، وہ ہمیشہ کہتیں۔
امّاں عجیب سگھڑ خاتون تھیں۔ ایک دن گوبھی پکتی تو اگلے دن گوبھی کے پتوں اور ڈنٹھلوں کی سبزی تیار ہو جاتی۔ اور سچ پوچھو تو اکثر فیصلہ مشکل ہو جاتا کہ اصل مزہ گوبھی میں تھا یا اس کے ڈنٹھلوں میں۔ جب بھی بازار جاتیں، غفور درزی کی دکان سے کترنوں کی پوٹلی لے آتیں۔ کچھ دنوں بعد وہی کترنیں تکیوں میں بھر دی جاتیں۔
“روئی کے تکیے تو جراثیم کا گھر ہوتے ہیں،” وہ سمجھاتیں۔
پھر انہی تکیوں پر رنگ برنگے دھاگوں سے شعر کاڑھ دیتیں — کبھی فیض کا مصرع، کبھی کسی لوک گیت کی لَے۔ اور ہنستے ہوئے کہتیں،
“تم لوگ تو شاعری پر سر رکھ کے سوتے ہو، شہزادے شہزادیوں کے نخرے کم کہاں!”
عید قریب آتی تو محلے بھر میں شور مچتا۔ سب بچے غفور درزی کے ہاں کپڑے سلواتے، مگر امّاں کہتیں،
“وہ تو مجبور ہیں، میں اپنے بچوں کے کپڑے خود سیوں گی۔”
جمعۃ الوداع کے دن ابّا کہیں سے لٹھے اور چھینٹ کے دو آدھے تھان لے آتے۔ لٹھے سے ابّا اور تینوں لڑکوں کے، اور چھینٹ سے امّاں اور دونوں لڑکیوں کے جوڑے کٹتے۔ پھر سب کو سلا کر، سہری تک، امّاں نصیبن آپا کی سلائی مشین پر کپڑے سی لیتیں۔
نصیبن آپا کی شرط ہوتی کہ اُن کے اور اُن کے میاں کے کپڑے بھی امّاں سلیں — اور امّاں کبھی انکار نہ کرتیں۔
جب ہم ذرا بڑے ہوئے تو سوچنے لگے کہ باقی بچوں کے رنگ برنگے، چمکیلے کپڑوں کے مقابلے میں ہمارے یکساں جوڑے پھیکے کیوں لگتے ہیں۔ مگر امّاں کا جواب ہمیشہ دل کو لگا:
“ایک جیسے کپڑے محبت بڑھاتے ہیں، اور ویسے بھی عید کے بعد جنہیں دوبارہ نہ پہنا جا سکے، ان کی چمک کا کیا فائدہ؟”
عید کی صبح سب سے خاص لمحہ وہ ہوتا جب ابّا ہمیں ایک ایک روپے کا بڑا چاندی والا سکہ دیتے۔ اُس سکے کے خواب میں ہی چاند رات گزر جاتی۔ صبح ہوتے ہی ہم گول پلاسٹک کی عینک، میٹھی املی، مٹی کے کھلونے اور بانس کے گھوڑے خریدتے۔ آخر میں بچا کھچا پیسہ ایک بوتل سوڈے پر خرچ ہوتا، جس کے گھونٹ گنے جاتے کہ کہیں کوئی زیادہ نہ پی لے۔
پیسے ختم ہونے پر ہم حسرت سے دیکھتے کہ دوسرے بچے پٹھان کی بندوق سے غبارے پھوڑ رہے ہیں۔ بندر اور ریچھ کا تماشا کبھی کبھار نصیب ہو جاتا — مگر لکڑی کے جھولے پر بیٹھنے کی ہمت کسی میں نہ تھی، کیونکہ ٹکٹ مہنگا تھا اور دل میں خوف بھی۔
بقرعید پر محلے بھر میں قربانی ہوتی، سوائے ہمارے۔ مگر امّاں کا فلسفہ نرالا تھا:
“اللہ میاں اُن سب بکریوں کو اوپر جمع کر رہا ہے جو ہم دنیا میں نہیں کاٹ سکے۔ جب ہم اوپر جائیں گے، تو ایک ساتھ سب قربان کریں گے۔”
ایک دن گڑیا نے معصومیت سے پوچھا،
“امّاں، کیا ہم جلدی اوپر نہیں جا سکتے؟”
امّاں چپ ہو گئیں۔ پہلی بار اُن کی خاموشی میں کچھ ٹوٹنے کی آواز تھی۔
چند ماہ بعد، ایک دن باورچی خانے سے ایک چیخ اُٹھی۔ جب ہم اسکول سے لوٹے تو پتہ چلا کہ امّاں کا دل اچانک بند ہو گیا۔ تدفین کے بعد، اگلے دن گڑیا نے میرا بازو پکڑ کر روتے ہوئے کہا،
“خود تو اوپر جا کر اگلی عید پر بکرے کاٹیں گی، اور ہمیں یہیں چھوڑ گئیں…”
ادارتی تبصرہ:
یہ کہانی صرف غربت کی نہیں، بلکہ وقار اور محبت کی بھی ہے۔ یہ اُن ماؤں کی یادگار ہے جو کم وسائل میں بھی اپنی اولاد کو آسودگی کا احساس دیتی ہیں۔ وسعت اللّٰہ خان جیسے فنکاروں کے قلم سے نکلے یہ کردار آج بھی ہمارے معاشرتی حافظے میں زندہ ہیں — خاموش، مگر گہرے۔
(بازتحریر: از وسعت اللّٰہ خان کے افسانوی اسلوب سے متاثر)
![]()

