تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے
تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سید اسلم شاہ
ہالینڈ(ڈیلی روشنی نیوز انٹرنیشنل )بلْ هُوَ قُرْآنٌ مَّجِيدٌ ﴿٢١﴾ فِي لَوْحٍ مَّحْفُوظٍ ﴿٢٢﴾ قرآن مجید لوح محفوظ میں مکتوب ہے ۔۔۔۔۔۔ دوسری سورت میں ہے ۔۔۔۔ إِنَّهُ لَقُرْآنٌ كَرِيمٌ ﴿٧٧﴾ فِي كِتَابٍ مَّكْنُونٍ ﴿٧٨﴾ لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ﴿٧٩﴾ ایک پوشیدہ کتاب میں اس کوکوئی چھو نہیں سکتا سوائے وہ جو پاکیزہ ہوتے ہیں ۔۔۔ ایک اور سورت میں ہے۔۔۔حم ﴿١﴾ وَالْكِتَابِ الْمُبِينِ ﴿٢﴾ إِنَّا جَعَلْنَاهُ قُرْآنًا عَرَبِيًّا لَّعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ﴿٣﴾ وَإِنَّهُ فِي أُمِّ الْكِتَابِ لَدَيْنَا لَعَلِيٌّ حَكِيمٌ ﴿٤﴾ قرآن سے نو آیات پیش خدمت ہیں یہ ثابت کرنے کے لئے کہ قرآن Multidimensional ہے ۔۔ جب کوئی انسان اسے پڑھتا ہے تو اس کا افیکٹ یعنی اثر کا ایک سلسلہ وقوع پذیر ہوتا ہے چاہے وہ اسے سمجھے یا نہ سمجھے کہ کیا پڑھا جاتا ہے کیونکہ آواز ایک توانائی ہے اور توانائی کا استعمال کائنات میں بغیر تبدیلی لائے نہیں رہیتا ۔۔ اور دنیا کی دوسری جانب جہاں درخؒت کا اوپر والا حصہ ہے وہاں تک دنیا سے ٹھیک اسی طرح پانی اور نمکیات پہنچتے ہیں اور پتہ روشنی اور ہوا کی موجودگی میں درخت کے اندر ایک مثبت تبدیلی پیدا کرتا ہے ۔ ایک قرآن رب کا کہا گیا قرآن ہے اور رب جو کہتا ہے قرآن کی شکل میں ڈھلتا جاتا ہے وہ اصل قرآن ہے اور کائنات ایک لوح ہے جس پر یہ قرآن مسلسل لکھا جاتا ہے اس تک رسائی کے لئے ضروری ہے کہ ماں باپ کی دنیاوی وراثت حاصل نہ ہوئی ہو علم انیبا کی وراثت ہے اور اگر کچھ اور علم کے سوا حاصل ہوا تو آپ لوح محفوظ تک نہیں پہنچ پاتے یہ رب کا قانون ہے پانی سے پاکیزگی ضرور حاصل ہوتی ہے مگر اندر کی پاکیزگی لالچ ، بغض، نفرت اور منفی سوچ کا نہ ہونا ہے ۔۔ وہ لوگ جو نوٹوں کی مالیت اور شکل میں فرق کرنے سے محروم ہوں ان کو اس قرآن تک پہنچنے میں کافی آسانی ہوتی ہے جب انسان قرآن پڑھتا ہے تو وہ کسی کاغذ پر لکھا ہوتا ہے اور اصل قرآن کائنات میں اجرام فلکی کی سورتوں میں انسانوں اور مخلوقات کی شکل میں موجود ہے دنیا اور آخرت کی شکل میں موجود ہے اس سارے ہارڈ وئیرکا ایک سافٹ وئیر بھی موجود ہے مادے کی اصل حققیت انفارمیشن ہے اور انفارمیشن لکھی جاتی ہے بڑھتی ہے تبدیل کی جاسکتی ہے ۔۔ ام الکتاب کائنات ہے لوح محفوظ کائنات ہے اور مخلوق اور واقعات حروف ہیں اور ان سب کا ایک ہی مطلب ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی رب نہیں ہے جو اس لوح کا بھی مالک ہے لکھنے والا بھی اصل میں وہ ہی ہے
لَوح بھی تُو، قلم بھی تُو، تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
عالَمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرّۂ ریگ کو دیا تُو نے طلوعِ آفتاب
شوکتِ سنجر و سلیم تیرے جلال کی نمود
فقرِ جنیدؒ و بایزیدؒ تیرا جمالِ بے نقاب
شوق تیرا اگر نہ ہو میری نماز کا امام
میرا قیام بھی حجاب، میرا سجود بھی حجاب
تیری نگاہِ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل غیاب و جستجو، عشق حضور و اضطراب
![]()

