27 ویں آئینی ترمیم کے خلاف آل پاکستان وکلا ایکشن کمیٹی کی پہلی میٹنگ میں ہی وفاقی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کے مطالبے پر اختلاف سامنے آگیا۔
لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی میزبانی میں آل پاکستان وکلا ایکشن کمیٹی کی میٹنگ لاہور ہائی کورٹ بار کے جاوید اقبال آڈیٹو ریم میں ہوئی جس میں چیئرمین ایکشن کمیٹی منیر اے ملک، سینئر قانون دان اعتزاز احسن ، حامد خان، لطیف کھوسہ، شفقت چوہان، اشتیاق اے خان، سابق جج لاہور ہائی کورٹ شاہد جمیل اور دیگر نے شرکت کی۔
دوران میٹنگ شرکا نے 27 ویں آئینی کے خلاف لائحہ عمل بنانے کے لیے اپنی اپنی تجاویز پیش کیں۔
صدر لاہور ہائی کورٹ بار آصف نسوانہ نے اعلان کیا کہ ہر جمعرات کو ارجنٹ کیسز کے بعد مکمل عدالتی بائیکاٹ ہوگا، جنرل ہاؤس اجلاس کے بعد ریلی نکالیں گے، یہ تحریک صرف ہماری نہیں بلکہ ججز کی بھی ہے کیونکہ اس ترمیم سے سب سے زیادہ متاثر ججز ہوئے ہیں، لہٰذا امید کرتے ہیں کہ ججز بھی ہڑتال کی حمایت کریں گے۔
میٹنگ کے دوران حامد خان نے وفاقی آئینی عدالت کے قیام کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور وکلا سے مطالبہ کیا کہ اس عدالت کا بائیکاٹ کیا جائے تاہم بیرسٹر اعتزاز احسن اور منیر اے ملک نے آئینی عدالت کے بائیکاٹ کی مخالفت کی۔
اعتزاز احسن نےکہا کہ کہا جاتا ہے پارلیمنٹ بالادست ہے لیکن میں کہتا ہوں آئین بالادست ہے۔ اعتزاز احسن نے تجویز دی کہ جوڈیشری سے متعلق جو ایشو اٹھے اسے دبنے نہ دیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں آئینی عدالت کے بائیکاٹ کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے یہ لمبی ریس ہے، ہمیں شروع میں ہی نہیں تھک جانا چاہیے۔
چیئرمین ایکشن کمیٹی منیر اے ملک نے بھی آئینی عدالت کے بائیکاٹ کی مخالفت کی جس کے بعد وکلا ایکشن کمیٹی کے اعلامیے سے آئینی عدالت کے بائیکاٹ کی شق میں ترمیم کرکے اسے بار ایسوسی ایشن کی مشاورت سے مشروط کردیا گیا۔
وکلا ایکشن کمیٹی سے خطاب میں لطیف کھوسہ نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ انہیں قابل قبول نہیں تھے، وزیر قانون کے پاس نہ 26 ویں آئینی ترمیم کا مسودہ تھا نہ 27 ویں ترمیم کا مسودہ تھا، اس وقت آئین پر جو حملہ کیا گیا ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
وکلا ایکشن کمیٹی کے اعلامیے میں واضح کیا گیا کہ آل پاکستان وکلا ایکشن کمیٹی وفاقی آئینی عدالت کو مسترد کرتی ہے، سپریم کورٹ کی موجودگی میں کسی آئینی عدالت کی ضرورت نہیں اور موجودہ ترامیم آئین کے بنیادی ڈھانچے پر حملہ ہے۔
![]()
